اردو زبان محض ایک ذریعہ ابلاغ نہیں بلکہ تہذیب و تمدن، علم و حکمت، شعور و آگہی، اور روحانی لطافتوں کا گلدستہ ہے۔ اس کی شیریں بیانی، وسعتِ بیان، اور دلفریب اسلوب نے صدیوں سے دلوں کو مسخر کیا ہے۔ اردو نے برصغیر کے علمی، ادبی، دینی اور صوفیانہ فضا کو معطر کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، اور اگر اس کی ترویج و اشاعت کے اصل محافظوں کا ذکر کیا جائے تو بلاشبہ "مدارسِ اسلامیہ” اور "علمائے ربانیین” سرفہرست نظر آتے ہیں۔
مدارس: اردو کے قلعے، دین کے قافلے
دینی مدارس نے صرف اسلامی علوم کی اشاعت کا فریضہ انجام نہیں دیا، بلکہ اردو زبان کو زبانِ علم، زبانِ وعظ، زبانِ ادب، اور زبانِ دل بنا کر پیش کیا۔ برصغیر کے ہزاروں مدارس اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ہوئے ہیں، جن میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، منطق، فلسفہ اور دیگر علومِ اسلامی کی تدریس اردو زبان میں ہی کی جاتی ہے۔ اردو، مدرسے کے صحن میں فقط ایک زبان نہیں بلکہ ایک جذبہ، ایک فکری تسلسل، اور ایک دینی روایت ہے۔
علماء کی زبان، قوم کی پہچان
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری،تاج الفحول علامہ عبدالقادر بدایونی،مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا نوری،صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی،شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی، رئیس القلم علامہ ارشدالقادری، بدرملت علامہ بدرالدین احمد قادری رضوی،تاج الشریعہ علامہ اختر رضا ازہری،فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہم الرحمہ اور ان جیسے بے شمار علما نے اردو زبان کے وسیلے سے اسلامی علوم کا بیش بہا خزانہ قوم تک پہنچایا۔ ان کی تحریریں، خطبات، اور تصانیف نہ صرف دینی بصیرت سے مالا مال ہیں بلکہ اردو ادب کی زینت بھی ہیں۔ ان کی نثر میں سادگی بھی ہے، شائستگی بھی، اثر انگیزی بھی ہے اور ادبی چاشنی بھی۔
مدارس کی لائبریریاں اردو علوم کا خزینہ:
ملک بھر کے دینی مدارس کی لائبریریاں اردو کی نایاب، تحقیقی، اور کلاسیکی کتابوں سے مالا مال ہیں۔ یہ کتب صرف ذخیرہ نہیں بلکہ اردو علمی ورثے کا سرمایہ ہیں۔ مدارس میں طلبہ کو اردو زبان میں تقریر، مضمون نگاری، ترجمہ، ادبی فہم، اور تحقیق کی تربیت دی جاتی ہے، جو انہیں زبان کے سچے خادم اور مروج بناتی ہے۔
خطبہ گاہ سے ادب گاہ تک:
مدارس سے فارغ التحصیل علما جب قوم کے سامنے خطبہ دیتے ہیں، منبر و محراب پر وعظ کرتے ہیں، یا درس و تدریس کے میدان میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی زبان اردو ہی ہوتی ہے۔ یہی اردو سامعین کے دلوں کو گرما دیتی ہے، ذہنوں کو جلا بخشتی ہے، اور قلوب کو حق و صداقت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح اردو زبان ایک زندہ اور متحرک علمی و روحانی زبان بن کر ابھرتی ہے۔
اردو زبان کی بقا اور دینی تشخص:
یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر مدارس نہ ہوتے تو اردو زبان اپنا علمی و دینی تشخص کھو بیٹھتی۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اردو کا جو حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ایسے میں مدارس ہی وہ چراغ ہیں جو اردو زبان کی لو کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آج جب کہ اردو زبان کو تعلیمی اداروں اور سرکاری سطح پر محدود کیا جا رہا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم دینی مدارس اور علمائے کرام کی خدمات کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہو کر اردو زبان کی ترویج و اشاعت کا فرض ادا کریں۔ اردو صرف ایک زبان نہیں، یہ ہماری تہذیب، تاریخ، اور دینی شناخت کا آئینہ ہے۔ مدارسِ اسلامیہ اور علماء دین اسی آئینے کی حفاظت میں مصروفِ عمل ہیں۔
آخر میں بارگاہ رب ذوالجلال میں دعا ہے کہ اے ربِّ کائنات! اردو کی اس شیریں زبان کو تا قیامت علم و عرفان، تہذیب و ایمان، اور حق و صداقت کا مینارِ نور بنا دے۔
اے پروردگار! مدارسِ اسلامیہ کے فیض کو روز بروز ترقی عطا فرما، ان کے چمنِ علم کو ہمیشہ شاداب و سرسبز رکھ، اور علمائے کرام کے قلم و بیان میں ایسا اثر عطا فرما کہ دلوں کو ایمان کی روشنی ملے، ذہنوں کو فکر کی جلا نصیب ہو، اور امت کے قافلے منزلِ مقصود تک پہنچیں۔
یا اللہ! ہمارے دلوں میں اردو کی محبت، اسلاف کے علوم کی حرارت، اور دین کی خدمت کا سچا جذبہ بسا دے۔
اے مالک الملک! اس زبان کو ہمیشہ قرآن و حدیث کی ترجمان اور امت کے اتحاد و یکجہتی کا مظہر بنا کر محفوظ فرما، اور ہمیں اس کی حفاظت و اشاعت کا امانتدار خادم بنا۔
اے رب العالمین! ہمارے حال پر رحم فرما، ہمارے ماضی کو شرفِ قبول دے، ہمارے حال کو سنوار دے، اور ہمارے مستقبل کو نورِ ایمان سے منور فرما۔
آمین، بجاہِ سید المرسلین ﷺ۔
ازقلم: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم: دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)