سیرت و شخصیات مذہبی مضامین

انبیاے کرام علیہم السلام اور مقام صبر و رضا

تحریر: محمد روشن رضا مصباحی ازہری (خادم :رضوی دارالافتاء، رام گڑھ) 

اللہ عزوجل نے جب اس کائنات کی تخلیق فرمائی تو خالق حقیقی نے اصلاح امت و فلاح ناس و تزکیہ نفس کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی پاکیزہ جماعت کو مبعوث فرمایا اور ان کے بھیجنے کا صرف ایک مقصد تھا کہ بندگان خدا کو معبودان باطل کی پرستش سے آزاد کرکے ایک خدا کی بارگاہ میں جھکنے کی تلقین کریں اور ان کے سامنے اللہ کلام و ارشادات و فرامین کو پیش کرکے ان کے دلوں میں میں خوف خدا پیدا کریں اور ان کا تصفیہ نفس و تذکیہ قلب کریں. چنانچہ اللہ فرماتا ہے. "جیسا کہ ہم نے تمھارے درمیان تمھیں میں سے رسول بھیجا جن کا کام ہی ہے تمھارے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کریں، اور تمھارے قلوب کو باطنی امراض جیسے بغض و حسد، کینہ، عداوت، نفرت سے پاک کرکے باہمی الفت و محبت و رواداری کا کی حسین آماجگاہ بنادیں. اور وہ تمھیں کتاب یعنی کلام الہی اور حکمت کی تعلیم دے سکیں.اور قرآن حکیم کے اندر ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر اللہ نے بعثت انبیاء کے مقاصد کا تذکرہ فرمایا اور لازمی طور پر جن امور کا ذکرہوا وہ ہے اصلاح باطن اور تذکیہ نفس، اور انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزہ جماعت نے اپنی ذمہ داری کماحقہ نبھائی اور اپنی زندگی کے بیشتر لمحات کو خلق خدا کو دعوت دین دینے اور اصلاح عمل میں صرف فرمائی. اور یہ دعوت دین کس قدر صبر آزما اور دشوار گزار امر ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس کام سے منسلک ہے، آج جو ہم دعوت دین دیتے ہیں ہمارا دائرہ کار عموماً مسلمانوں اور کلمہ گو کا طبقہ ہوتا ہے مگر انبیاء کرام علیہم السلام نے دعوت دین اسلام اور خدا کی وحدانیت کا پرچار و پرسار ان لوگوں کے درمیان کیا ہے جن کے دل و دماغ میں پتھر کے بتوں کی اہمیت رچی بسی تھی، صدیوں سے ان کے آباء و اجداد انہیں باطل معبودوں کے آگے سر جھکاتے آے تھے، اب آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ ایک ایسا ماحول جہاں صرف طاغوتی طاقتوں کا چلن ہو، جن کے افکار و اذہان میں اپنے باپ دادا کی روش راسخ ہو ایسے ماحول میں ان متشدد لوگوں کے بیچ میں جاکر یہ کہنا کہ تمھارے باپ دادا جن باطل خداؤں کی عبادت کرتے تھے، جن پتھروں اور شمس و قمر کے آگے سر جھکاتے تھے، وہ سب بے اختیار ہیں، انہیں کسی چیز پر قدرت نہیں، ان کی ناک پر اگر مکھی بھی بیٹھ جائے تو وہ اسے اڑانے پر قادر نہیں ہیں، وہ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، اس زمین پر صرف ایک ذات ہے جس کی شان فعال لمایرید ہے،وہی واحد ہے جس کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ "جب بھی وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ فرماتا ہے، تو بس کہتا ہے” کُن” ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے، اسی نے تم سب کو پیدا کیا اور ان بتوں کو تم نے بنایا ہے بھلا یہ عبادت کے قابل کہاں ہوسکتے ہیں، اگر تمھیں اس خداے خالق کے قریب ہونا ہے تو آؤ میں تمھیں اس کا پتا دیتا ہوں، چھوڑ دو ان پتھروں کو پوجنا جس کو تم نے بنایا ہے اس کی عبادت کرو جس نے یہ دنیا بنائی، جس نے اس کائنات کے ذرے ذرے کو پیدا فرمایا، وہی حی و قیوم ہے، وہی مالک ارض و سما ہے، جب یہ انبیاء کرام خداے واحد کی عبادت کو پیش کرتے تو وہ ظالم قوم سفاکیت و ظلم پر اترجاتی اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو طرح طرح کی اذیتیں دیتی، ان کے اوپر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے نتیجتاً متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کو ظلما قتل کر دیا گیا.بطور نمونہ ہم ان چند انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرتے ہیں جن کی ابتلاء و آزمائش کا ذکر قرآن میں ہے مگر اللہ نے ان مقدس نفوس کو وہ صبر و تحمل کی قوت عطا فرمایا تھا کہ اتنے شدائد و مصائب کے باوجود بھی کبھی اپنی زبان پر حرف شکایت نہیں لاتے تھے بلکہ رضائے الہی سمجھ کر صبر کرلیتے.ابوالأنبياء،خلیل اللہ حضرت ابراهيم علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسليم کو اللہ نے اس راہ تبلیغ وہ دعوت کے اندر کتنی بڑی بڑی آزمائشوں میں مبتلا کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ایک خدا کی دعوت دی تو ان ظالموں نے آپ کو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ڈال دیا تاکہ اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینے والی زبان  ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے مگر واہ رے پیغمبر اسلام کا توکل علی اللہ، رحمت خداوندی پر یقین بغیر کسی توقف و تردد کے جناب ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش کے لیے راضی ہوگئے اور جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو وہ آگ جس کے شعلے ابھی چند لمحے پہلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے، جیسے ہی رب کا خلیل صبر و استقامت کا جبل عظیم بن کر آگ میں پہونچا تو وہ آگ پھول بن گئ. جبھی تو کہا جاتا ہے. عبے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشقعقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی. یہ جذبہ خلیلی آج بھی ہم مومنین کو دعوت توکل و یقین دے رہا ہے کہ مسلمانوں! عآج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیداآگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا.حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے اتنا حسین و جمیل بنایا تھا کہ مصر کی عورتیں آپ کے وجہ کریم کے حسن و ملاحت کو دیکھ کر ایسے حواس باختہ ہوئیں سب کے سب سیب کے بجائے اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لی، مگر جب ان کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو واضح ہوگا کہ اللہ نے کیسے کیسے امتحان میں مبتلا کیا ، بچپن میں ہی ان کے سوتیلے بھائیوں نے حسد کی آگ میں جلتے ہوئے انہیں بکریاں چرانے کے بہانے جنگل لے گئے اور ان لوگوں نے انہیں کنویں میں ڈال دیا پھر راہگیروں نے کنویں سے نکالا اور بازار مصر میں لے جاکر انہیں بیچ دیا. پھر آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی.اندازہ لگائیں ذرا کہ کتنا صبر آزما وہ زمانہ ہوگا جب جناب یوسف علیہ السلام کو کنویں ڈالا گیا ہوگا، پھر بازار میں لےجاکر بیچا گیا ہوگا مگر واہ، آپ کا تحمل آپ نے رب سے کوئی شکایت نہیں کی.حضرت ایوب علی نبینا علیہ الصلوۃ وال تسليم اتنے بڑے جلیل القدر پیغمبر تھے کہ اللہ عزوجل نے آپ کو گوناگوں فضائل و خصائص و ممیزات کا جامع بناکر دنیا میں مبعوث فرمایا تھا، اللہ نے آپ کو مال و اولاد و خوبصورت و حسین جسم سے نوازا تھا مگر جب اللہ عزوجل نے اپنے اس پیغمبر و نبی کو آزمانا چاہا تو آپ کے مال و اولاد کی ہلاکت کے ذریعہ آپ کو آزمائش میں مبتلا کیا، حتی کے پاکیزہ و خوبصورت جسم میں بھی ایسا مرض دے دیا جس سے آپ کا سارا وجود متاثر ہوگیا صرف زبان اور دل سلامت تھا مگر آپ کے صبرو تحمل کو لاکھوں سلام، اتنی آزمائشوں کے باوجود آپ کی زبان جب بھی کھلتی تھی تو شکر الہی کے راگ ہی الاپتی تھی اور جب بھی آپ کا دل دھڑکتا تھا وہ یاد خدا اور خوف الہی میں دھڑکتا تھا، آپ نے اتنے ابتلاء و آزمائش کے باوجود کبھی اپنی زبان پر کلمات شکوہ نہیں لایا بلکہ آپ نے ایسا صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا کہ آپ کا صبر ضرب المثل بن گیا. جب بھی کسی پر کوئی تکلیف آتی ہے تو اسے صبر ایوبی کی تلقین کی جاتی ہے اور دعا کرتا ہے میرے مالک! مجھے صبر ایوب کا کچھ حصہ عطا فرمادے تاکہ میں اپنے غم و آلام کا صبر و شکر سے مقابلہ کرسکوں.اسی طرح نبی رحمت، نورمجسم، تاجدار انبیاء، خاتم المرسلین، انیس الغریبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ حیات طیبہ میں بھی ایسے ایسے مصیبت و تکلیف کے دور آے کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر آتا تو شدت تکلیف سے پارہ پارہ ہوجاتا مگر قربان ہمارے آقا کی شان تحمل پر آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان اذیتوں کا سامنا کیا اور ظالموں کی ہدایت کی دعائیں مانگی. جنگ احد کا وہ دردناک منظر جس میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، سرزمینِ طائف کی وہ اذیتیں جس دن آپ کے قدم مبارک لہو لہان ہوگئے، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف رات کی تاریکی میں ہجرت کا وہ دردناک منظر، غار ثور میں آپ کا قیام، شعب ابی طالب میں آپ کا محاصرہ، مسلسل گھرمیں فاقے، کفار مکہ کےطعنے بھرے جملے، دلوں کو چھلنی کرنے والے ان کے سب و شتم کے الفاظ، اتنی ساری تکالیف و اذیت کے بعد اپنی زبان پر کبھی بھی رب سے شکایت نہیں کی بلکہ اپنی عبادات و طاعات میں صبر و استقامت کی دعائیں مانگتے.جب اللہ عزوجل نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسی مشکل گھڑی کا مشاہدہ فرمایا تو خلاق کائنات نے تسلی بھری آیات قرآن میں نازل فرمائی، کبھی اللہ کا ارشاد ہوتا ہے "اے میرے محبوب! آپ ان أولو العزم انبیائے کرام کی طرح صبر کریں، ان مشکلات کا سامنا فقط آپ کو نہیں ہوا ہے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے ان کی زندگی میں بھی بڑے بڑے مصبیت کے پہاڑ آے مگر انھوں نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، آپ بھی سابقین انبیاء کی طرح صبر کریں، عنقریب یہ مصیبتوں کا دور ختم ہوجاے گا اور اللہ آپ کی زندگی میں خوشحالی لاے گا، جب میرے سرکار نے طائف کے پتھر، شعب ابی طالب میں بچوں کی بھوک و پیاس کی تکلیف، جنگ احد میں چچا امیر حمزہ کا جگر چبانے پر صبر فرمایا تو زمانہ نے دیکھا کہ اللہ نے آپ کو وہ رفعتیں بخشیں کہ سارا زمانہ آپ کا ہوگیا اور ہر ایک زبان پر کلمہ توحید لاالہ الا اللہ گونجنے لگی.معزز قارئین کرام! انبیاء کرام علیہم السلام کو اتنی عظمت و شان و رفعت و مرتبہ کے باوجود اللہ نے بڑے بڑے آزمائشوں سے گزارا تو اگر ہم اللہ کو مانتے ہیں، رسولان عظام پہ ایمان ہے ہمارا، نبی کریم کا کلمہ پڑھتے ہیں تو ہماری زندگی میں بھی مصیبتیں آئیں گی، تکالیف ہمارے دروازے بھی کھکھٹائیں گے، ہمارے اوپر بھی زمینیں تنگ کی جائیں گی، کیوں کہ  ع. شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہےلوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا اور قرآن نے صاف لفظوں میں بتادیا ہے کہ ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ صرف انہیں ایمان لانے سے ان کو چھوڑ دیا جائے گا نہیں ہر گز نہیں ہم نے جس طرح امم سابقہ کو ابتلاء و آزمائش سے دوچار کیا اسی طرح ان کے اوپر بھی مصیبتیں آئیں گی تاکہ پتہ تو چلے کہ خوشیوں کا بندہ کون ہے، اور خدا کا بندہ کون، عزت و شہرت و آرام و آسائش کا بندہ کون ہے اور رحمن کا بندہ کون، اپنے دعویٰ ایمان میں سچا کون یے اور جھوٹا کون، اس لیے ایسے حالات میں ہمیں آہ و فغاں نہیں کرنا ہے بلکہ ہمیں بھی انہیں پیغمبران خدا  کی روش پر چل کر سراپا عجز و نیاز بن کر صبر و رضا کے جذبہ کے ساتھ شکر و حمد کے نغمے الاپتے ہوے رب رحمن کے سر تسلیم خم کرنا ہے.اللہ ہم سب کے دلوں میں صبرو تحمل کا جذبہ پیدا فرمائے اور ہر حال میں راضی بہ رضائے الہی کی توفیق مرحمت فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے