نتیجۂ فکر: شمس تبریز خاکٓی ظہوری بلگرامی
خانقاہِ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف(ہرودئی)
بختِ خفتہ کے سبھی جڑ سے ہی کٹ جائیں درخت
یا خدا سر سے گناہوں کے یہ ہٹ جائیں درخت
سر پٹک کر ہی ہاں رہ جائیں یہ طوفاں سارے
نامِ سرکار کہیں لے کے جو ڈٹ جائیں درخت
عشق و الفت کے سدا جھوکے لگیں گے ہر جا
ان کی تعلیم کے گر چار سو بٹ جائیں درخت
میں مسافر ہوں مدینہ کا دعا ہے میری
راہ طیبہ میں گرے سارے ہی ہٹ جائیں درخت
یاخدا وصل میسر ہو کبھی مجھ کو اور
فرقتِ صاحبِ لولاک کے کٹ جائیں درخت
جب محافظ ہے خدا اس کا اے دنیا والو
کیسے پھر دھر سے یہ نعت کے گھٹ جائیں درخت
بارشیں ہو نہ اگر ان کے کرم کی خاکی
بخدا سوکھ کے اک پل میں ہی پھٹ جائیں درخت