خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
محفل میں ان کی جانا ذرا دیکھ بھال کے
ہاتھ ان سے تم ملانا ذرا دیکھ بھال کے
کرنی ہے گفتگو ذرا آداب بھی رہے
روداد تم سنانا ذرا دیکھ بھال کے
لائق نہیں کبھی بھی دل ِاعتبار کے
اُن پر بھروسہ کرنا ذرا دیکھ بھال کے
محفل میں حاسدین کی لمبی قطار ہے
تم کو ہے پاس آنا ذرا دیکھ بھال کے
بیٹھے ہیں انکی بزم میں کچھ مار ِ آستیں
اب بِین بھی بجانا ذرا دیکھ بھال کے
یہ دَور ِ پُر فتن ہے پر رکھنا ہے یہ خیال
تم راز ِ دل بتانا ذرا دیکھ بھال کے
فیضان تُو چاہتا ہے اگر سب کا ہی بھلا
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے