ازقلم: جمال احمد صدیقی اشرفی
تمام تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کرکے خدا بننے کا جنون تاریخِ انسانی کے ہردور اور ہرعہد میں مسندِ اقتدار پر براجمان مطلق العنان بادشاہوں کے ذہنوں میں فتور برپا کرتا رہا ہے ۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرکے اپنی انا کو تسکین دینے کے اس شیطانی عمل نے اس کرۂ ارضی پر شاداب موسموں کی چاندنی بکھیرنے کے بجائے تاریخ کے اوراق پر جبر واستبداد کی ان گنت داستانیں رقم کی ہیں ۔ یہ جنون آج کی نام نہاد مہذّب اور جمہوری دنیا میں ظلم ۔ بربریت ۔ درندگی اور وحشت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری قوت اور شدّت کے ساتھ متحرک بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر روشن خیالی ۔ سائنسی اور فنی ارتقاء کے باوجود انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے قریب تر ہورہے ہیں ۔ جنگل کا قانون آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اولادِ آدم پر مسلط ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ کار مذمّت خوشنما اور دلفریب عنوانات کے تحت جاری ہے ۔ اب توسیع پسندی کے پیمانے بدل گئے ہیں ۔ اب جسمانی غلامی کی جگہ سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے نئے انداز متعارف ہورہے ہیں ۔ ریاستی دہشت گردی نے ہرچیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ آتشِ نمرود سے میدانِ کربلا میں خاندانِ رسول ﷺ کے خیموں کو آگ لگائے جانے تک ریاستی دہشتگردی کی ان گنت مثالیں بکھری ہوئی ہیں ۔ ریاستی دہشتگردی جسے عموماً قانونی اور آئینی تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے ہمارے پورے عہد کی پہچان بن گئی ہے ۔۔
کہنے کو تو نسلی تعصبات کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن مغرب سمیت امریکہ جیسے نام نہاد مہذّب اور جمہوری معاشروں میں کالے اور گورے کے خون میں عملاً آج بھی تمیز روا رکھی جاتی ہے ۔
تاریخِ عالم شاہد عادل ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابنِ آدم کو قانون اور حقوق دینے والے پیغمبر امن حضرت محمد ﷺ کی دہلیز سے اپنی غلامی کا رشتہ استوار کرکے افقِ عالم پر دائمی امن کی بشارتوں کے نزول کو یقینی نہیں بناتی ۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتشِ نمرود میں بےخطر کود کر کلمۂ حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبحِ اسماعیل علیہ السلام سے ذبحِ حضرت حسین تک تسلیم ورضا اور ایثار وقربانی کی ان کائناتی سچائیوں کی امین ہے جن کے بغیر تہذیب انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہرتفھیم اور توجیہہ بےمعنی اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہے تاریخ اسلام حریت فکر کے امین انہی لمحات جاوداں کی عینی شاہد ھے ۔
ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎
غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل