از: محمد حسان رضا راعینی
پیلی بھیت شریف
متعلم جامعہ تحسینیہ ضیاء العلوم بریلی شریف
تمام تعریفیں اس پروردگار عالم کے لئے جس نے تمام کائنات کو ادب کے دائرے میں پیدا فرمایا پھر ہر مخلوق کو اپنے قانون فطرت کے مطابق خاص نظام ادب کا پابند بنایا اور درود و سلام ہو اس کے حبیب پاک، سرور عالم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے امت کو ادب کا درس دیا جس نے اس درس پر عمل کیا وہ کامیاب ہوا اور جنہوں نے غفلت اختیار کی وہ خائب و خاسر ہوا
ایک زمانہ تھا کہ ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ ماں، باپ، آل، اولاد، اور مال کی محبت پر غالب تھا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پر صدہا وجود حرکت میں آنے لگتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر لعاب دہن گراتے تو وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا تھا آپ وضو فرماتے تو اس پانی کو لینے اور منہ پر ملنے کے لیے لوگ ہر طرف سے ہاتھ پھیلا دیتے آپ کا کوئی تراشا ہوا ناخون یا موۓ مبارک گرتا تو لوگ ادب سے اٹھا کر احتیاط سے محفوظ رکھتے۔ یہی وہ طاقت تھی جو جسم اسلام میں روح کا کام کر رہی تھی اور دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں روما و ایران کو بھی پامال کرتی چلی گئی۔
آج مسلمانوں میں جذبہ عشق رسول سرد ہو چکا ہے آج دشمنان اسلام ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی زبانیں دراز کرتے ہیں تو کوئی اکا دکا عاشق رسول ہی جان ہتھیلی پر لے کر نکلے تو نکلے ورنہ پوری امت پر ایک غفلت کی نیند طاری ہے یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان نہایت کمزور ہیں، ذلیل ہیں، اور تمام اقوام سے گرے ہوئے ہیں۔ عشق رسول ہی مسلمانوں کی روح تھی وہ ناپید ہو چکی ہے لہذا ہم نے فرض سمجھا کہ اس گمراہی کے عالم میں حق کی آواز بلند کریں اور لوگوں کو حضور کی عزت کا مسئلہ بتایا جائے جو مسئلہ تمام مسائل سے اول و ضروری ہے۔
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
اللہ تعالی نے مسلمانوں پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کولازم فرمایا ہے تمہارے رب قدیر کا فرمان ہے
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
(سورة الفتح، ٨-٩)
بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔
تفسیر قرطبی میں اس آیت کے تحت فرمایا:
[و تعزروہ] أى تعظموه و تفخموه ؛ قاله حسن و الكلبي
[تفسير القرطبي، الجزء التاسع عشر ]
يعنى تعزروه كا معنى ہے "اے لوگوں تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرو” یہ امام حسن بصری اور کلبی کا قول ہے۔
اس آیہ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو حضور کی تعظیم و توقیر کرنے کا درس دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم مسلمانوں پر فرض ہے۔
صحابہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے تعلق سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ حضرت عروہ بن مسعود کفار قریش کا نمائندہ بن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ نے صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تعظیم کرتے دیکھا جس کی مثال نہیں ملتی، بخاری کے الفاظ ہیں:
إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَىْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ، يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُحَمَّدًا
(صحیح البخاري، كتاب الشروط، باب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ 2731)
حضرت عروہ (دوران گفتگو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو دیکھ رہے تھے پھر راوی نے کہا، اللہ کی قسم جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعاب دہن گراتے وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں آ جاتا وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتے تھے (اللہ اکبر یہ ہوتی ہے اصل محبت) اور جب آپ کوئی حکم فرماتے تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور جب آپ وضو فرماتے تو آپ تو وہ آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لئے اس طرح چھپٹتے تھے گویا ایک دوسرے کو قتل کر دیں گے اور جب آپ بات کرتے وہ سب آپ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کر دیتے اور وہ آپ کی تعظیم کی وجہ سے آپ کو نظر بھر نہیں دیکھتے تھے۔
پھر حضرت عروہ اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے اور کہا اے لوگو! اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں اور میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں اور اللہ کی قسم میں نے ہرگز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہو جتنی تعظیم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں۔
گستاخی کسے کہتے ہیں:
عوام بلکہ بہت بڑے سمجھدار لوگ سمجھتے ہیں کہ گستاخی شاید گالی دینے یا کسی کو عیب لگانے یا اس کی تحقیر و توہین کے الفاظ ہی کا نام ہے نہیں نہیں بلکہ گستاخی کی ایک قسم اور بھی ہے کہ اللہ تعالی، ملائکہ، انبیاء کرام، اور بالخصوص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسے کلمات بولنا جو ان کی شان کے لائق نہ ہوں یا آپ کی نسبت اقدس کو کسی حقیر و قبیح چیز سے تشبیہ دینا بھی گستاخی ہے اور یہ عوام بلکہ بہت سے خود کو علماء کہلوانے والے بھی کہ گزرتے ہیں پھر انہیں اس پر آگاہ کیا جائے تو تاویلیں گڑنے لگتے ہیں
قرآن مجید سے اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورة البقرة؛ 104)
اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
تفسير در منثور میں اس آیت کے تحت فرمایا:
عن ابن عباس في قوله : "لا تقولوأ راعنا” : وذلك أنها سبة بلغة اليهود ، فقال تعالى : "وقولوا أنظرنا” . يرىد : اسمعنا. فقال المؤمنون بعدها : من سمعتموه يقولها فاضربوا عنقه
فانتهت اليهود بعد ذلك”
(الدر المنثور ، الجزء الاول )
حضرت ابن عباس اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ لفظ راعنا یہود کی زبان میں گالی تھا اللہ تعالی نے ایمان والوں سے فرمایا تم کہو ہم پر نظر فرمائی اس آیت کے نزول کے بعد مومنین کہتے تھے کہ جس کو تم یہ لفظ (راعنا) استعمال کرتے ہوئے سنو اس کی گردن اڑا دو تو یہود اس کے بعد اس لفظ کے استعمال سے رک گئے
ثابت ہوا جس لفظ میں دو پہلو نکلتے ہو ایک اچھا اور ایک برا تو اسے بھی استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ صحابہ کرام لفظ راعنا رعایت کے معنی میں لیتے تھے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رعایت فرمائے لیکن یہودی اس لفظ کو گستاخی کی نیت سے کہتے تھے اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے اس لفظ کے استعمال پر روک لگا دی اور فرمایا اب تم لوگ "انظرنا” کہو اور آگے فرمایا کہ کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
گستاخ رسول کی سزا:
قرآن کریم کا اس بارے میں واضح فرمان ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
(سورة الأحزاب؛ 57)
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے.
بخاری اور مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ. فَقَالَ " اقْتُلُوهُ ”.
(صحیح البخاري ، كتاب جزاء الصيد ، 1846)
کہ فتح مکہ کے سال جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر مکہ میں داخل ہوئے آپ کے سر پر لوہے کا خود تھا جب آپ نے خود اتارا تو کسی شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آپ کی شان میں توہین کرنے والا) ابن خطل کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو۔
امام حجر عسقلانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
فأخذ عبد الله بن خطل من تحت أستار الكعبة فقتل بين المقام و زمزم
یعنى ابن خطل کو کعبہ کے پردوں سے نکال کر مقام ابراہیم اور بئر زمزم کے درمیان قتل کر دیا گیا۔
( فتح الباري)
امام نووی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
قال علماء ؛ إنما قتله لأنه قد كان ارتد عن الإسلام و كان يهجو النبي صلى الله عليه وسلم و يسبه
(شرح النووی علی المسلم)
کہ علماء نے فرمایا اسے اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ مرتد ہو گیا تھا اور وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتا تھا
نوٹ: اس سے معلوم ہوا کہ گستاخ رسول اگرچہ کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہو اسے بھی قتل کر دیا جائے
امام ابن عابدین شامی حنفی اپنے رسالہ "تنبيه الولاة والحكام على أحكام شاتم خير الأنام أو أحد أصحابه الكرام” میں لکھتے ہیں:
قال محمد بن سحنون: أجمع العلماء على أن شاتم النبي والمنتقص له کافر، والوعيد جار عليه بعذاب الله تعالى له، وحكمه عند الأمة القتل، ومن شك في کفره وعذابه کفر.
(صفحہ ٤٤)
محمد سحنون فرماتے ہیں علمائے امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا اور آپ کی توہین کرنے والا کافر ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی بعید جاری ہے اور امت کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
قارئین کرام! ہم نے یہاں قرآن و حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہر مسلمان پر فرض ہے اور جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرہ برابر توہین کرے وہ کافر ہے اور مستحق قتل ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح معنوں میں محبت کرنے والا بنا دے۔ اور ہمیں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرے دار بنا دے۔ اس شعر کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔