مذہبی مضامین

دور حاضر میں میثاق ِمدینہ کی معنویت

تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ۔ 9968012976

سیاسی دنیا کی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے اور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روز روشن کی طرح سامنے آتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا اوراق و صفحات پر رقم کردہ دستور ہونے کا شرف میثاق مدینہ کو حاصل ہے۔مدینہ میں آپﷺ کے کیے جانے والے ابتدائی اقدامات میں ایک بڑا نمایاں اقدام آپ ﷺکا مدینہ کے دوسرے تمام نمایاں قبائل اور خاندانوں سے ہونے والا معاہدہ تھا خوش قسمتی سے ابن اسحق نے اس قابل قدر دستاویز کو جسے ’’دستور ریاست مدینہ،، کا نام دیا جاتا ہے محفوظ رکھا۔ اس دستور سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم سیاسی حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی اس مثالی امت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی جس کے لئے آپ ﷺنے جدوجہد کی تھی۔ یہ ریاست (قانون الہیہ کے) پس منظر سے متعلق تھی اور عملی غور و خوض سے تشکیل پذیر ہوئی تھی، اور اس میں اعلیٰ تر اختیار اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہی حاصل تھا۔ جن کے سامنے تمام اہمیت کے معاملات پیش ہوتے تھے۔ اس دستور میں امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ یہود اور غیر مسلموں کو بھی امت میں شامل کیا گیاتھا۔میثاقِ مدینہ میں خصوصیت سے بنی اسرائیل، مدینہ کے قبائل اور قبائل کے سردار شامل تھے۔ اس معاہدے کی روح یہ ہے کہ حضورﷺنے غیر مسلموں کو غیر مسلم رہتے ہوئے اسلامی ریاست کا شہری مانا، اُن کے حقوق طے کیے اور یہ اہداف بھی طے کیا کہ کس طرح سے مل کرمدینہ کا دفاع کریں گے۔ طے ہوا کہ یہود اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے۔
میثاق مدینہ کی رو سے مختلف عقائد کے حامل افراد ایک ریاست کے شہری ہوسکتے تھے اور اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مشترک تعلقات (joint relationship) کے ساتھ ریاست کا نظام چلایا جاسکتا تھا،یعنی ایک یہ کہ مسلمانوں کا حضورﷺ کو بحیثیت نبی ماننا اورریاست کا سربراہ ماننا، اور غیرمسلموں کا حضورﷺکو نبی تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی انھیں ریاست کا سربراہ ماننا، آخری سیاسی اتھارٹی تسلیم کرنا، پھر یہ کہ ایک اسلامی قیادت اور اسلامی مملکت کا غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے مقام کا تعین کرنا تھا۔
میثاق مدینہ سے قبل مدینہ میں یہود کے دس قبائل تھے۔جو باہم ایک طویل خونریز جنگ میں مبتلا رہتے تھے۔ان کے سامنے صلح کی ایک تجویز پیش کرنا ایک کمال تھا۔آپﷺ نے اس منتشر قوم کے سامنے پہلی مرتبہ ایک قوم کا تصور دیا، شہریوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی فرمائی، ان کے قدیم رواج اور قبائلی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مدینہ میں ایک امت اور ایک ملت کی تجویز رکھی۔ مذہبی آزادی اور قبائل کے داخلی کلی اختیار کے ساتھ بیرونی حملوں کی مدافعت اور باہمی اختلافات کے تصفیہ کی بنیاد پر ان سارے قبائل کو متحد فرمایا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے مکان پر سارے مسلم و غیر مسلم قبائل کے نمائندوں کا اجتماع ہوا اور آپﷺ کی تجویز پر سارے قبائل بیرونی حملوں کے دفاع اور اندرونی مسائل کی یکسوئی کے لئے ایک چھوٹی سی ریاست کی تشکیل پر متفق ہو گئے اور سبھوں نے باتفاق آراء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جدید ریاست کا حاکم اعلی منتخب کیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ سے قبل مدینہ کی سرزمین کسی باقاعدہ دستور یا نظام نہ ہونے کی وجہ سے خونریزی اور قتل و غارت کا شکار بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف بد امنی، افراتفری، خونریزی، بربریت اور نفاق کا دور دورہ تھا۔ اُس دور میں انصارِ مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج آباد تھے۔ دوسری طرف یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے جو پورے یثرب پر غالب تھے۔ویسے تو وہاں قبائلی نظام موجود تھا مگر اُس نظام کے اندر کسی انسان کی عزت و آبرو، جان و مال کی حفاظت اور اُس کے مذہبی و روایتی رسوم و رواج اور ثقافت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔
یہ سب طبقات کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے جو وہاں امن و امان قائم کر سکے اور لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ گردشِ دوراں کے مارے مفلوک الحال لوگوں نے جب پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسیحائے دوعالم کے طور پر پہچان لیا،کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ان کی تعلیمات امن و آشتی پر مبنی، محبت پر استوار، رواداری پر ایستادہ، اخوت و بھائی چارے پر مبنی اور داخلی و خارجی دونوں طرح کے امن کی ضامن ہیں۔ اس پر یہ ذات رحمت ﷺ ہر طرح کے فسق و فجور کے خاتمے کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔ وہ ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی استحصال کے خاتمے کی ضامن بھی ہیں۔ وہ دولت کی مساویانہ تقسیم اور آسائش میں سب کو شریک اور امن و امان میں سب کو ذمہ دار بنانے پر قائم ہیں۔ انہوں نے ان روشن اور فلاحی حقائق پر متفقہ طور پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا پیشوا تسلیم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاشرکتِ غیرے سربراہِ ریاست منتخب کر لیا۔
میثاق مدینہ پہلا تحریری معاہدہ ہے۔جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا۔میثاق مدینہ کے چند اہم نکات۔
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔
مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔

مجید خدوری نے میثاق مدینہ کو غزوہ بدر سے پہلے کی دستاویز قرار دیا ہے۔ (ص: 206۔ peace in islam The Law of War and)
بنو فینقاع جو اس معاہدہ کے ایک فریق تھے، انہیں غزوہ بدر کے ایک ہی ماہ بعد، اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر مدینہ سے نکالا گیا۔ ابن اسحاق نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
بنو قینقاع پہلی جماعت تھی جس نے اس معاہدہ کو توڑا جو ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، انہوں نے بدر واحد کی درمیان مدت میں لڑائی کی تھی۔یہ عبارت اس بات کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہودیوں سے جن میں بنو قینقاع بھی موجود تھے، یہ معاہدہ غزوہ بدر سے پہلے ہی کیا تھا(ابن ہشام: السیرۃ االنبویہ 51:3)
واضح رہے کہ اس معاہدہ کے متن میں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کا نام درج نہیں۔ ان قبائل کو اوس و خراج کا حلیف ہونے کی وجہ معاہدہ میں شریک کیا گیا۔

یہ در حقیقت مدینہ میں پہلی سیاسی فتح تھی۔تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں سیاسی قواعد و ضوابط اور حکمرانی کے اصولوں کے حوالے سے کئی افکار و قوانین کو تحریری شکل میں لکھا گیا۔ مثلا منوسمرتی (500 ق م) جو راجہ کے فرائض پر مشتمل ہے کوتلیا کی آرتھ شاستر (300 ق م) اور اس کے ہم عصر ارسطو (384۔ 322 ق م) کی تحریروں کو سیاسیات پر مشتمل تصانیف گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ صدی میں شہر اینتھنز کا دریافت ہونے والا دستور ہے۔ مگر ان تمام تحریروں کی حیثیت حکمرانی کے لئے نصیحتی و مشاورتی یا درسی نوعیت کی ہے اور ان میں سے کوئی بھی تحریر ایسی نہیں ہے، جسے کسی باقاعدہ اور منظم ریاست کا قابل نفاذ دستور کہا جاسکے۔
میثاق مدینہ کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ تحریری دستور کا تصور دیا بلکہ وہ مذہب جس کی تبلیغ آپﷺ مکہ میں فرما رہے تھے۔ مدینہ آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی سیاسی حیثیت کو اس نئے شہر کے مختلف المذاہب کے ماننے والوں سے منوا لیا۔ اس دستور کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا باقاعدہ تعین فرمایا۔میثاق مدینہ کے تحت وجود میں آنے والی ریاست مدینہ میں مہاجرین، انصار اور مدینہ کے غیر مسلموں اور ان کے متبعین پر مشتمل کئی ریاستی اکائیاں شامل تھیں ،ان کے باہمی اشتراک سے وجود میں آنے والی ریاست میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت جہاں مختلف مملکتی طبقات کو آئینی طور پر Define کیا گیا، ان کے باہمی حقوق و فرائض اور آئینی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا وہاں اس امر کا لحاظ بھی رکھا گیا کہ آئینی قواعد و ضوابط کی پابندی ہر سطح پر یقینی ہو اور ہر سطح پر معاملات کو آئینی طور پر چلایا جا سکے اس کے لئے میثاق مدینہ میں تقسیم اختیارات کا تصور رکھا گیا تاکہ مقامی سطح پر نظم و ضبط کے قیام کے لئے انتظامی اختیارات تفویض کئے جائیں۔
میثاق مدینہ کے ذریعے پہلی اسلامی ریاست میں مسلم شہریوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جملہ حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔
آج کے موجودہ دور کی قانونی و دستوری میدان میں ترقی کے باوجود میثاق مدینہ جملہ آئینی و دستوری معیارات کے تناظر میں دور جدید کے کا کوئی بھی قانون اُسکا متبادل نہیں ہے۔ میثاق مدینہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی، جو صدیوں سے مدینہ کے حکمراں چلے آ رہے تھے۔
میثاق مدینہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میثاق کا بیشتر حصہ پورے متن کے ساتھ شاہ کانریڈ دوم کے دستور، منعقدہ 1037 ء میں نقل کیاگیا۔شاہ الفانسو نہم کے قانون حبس بے جا، منعقدہ، 1188 ء میں اسی کی اقتدا کی ہے۔میگنا کارٹا کے منشور اعظم، منعقدہ،1215 ء میں اسی منشور سے بہت سی باتوں کو اخذ کیا گیا ہے۔برطانوی پارلیمنٹ کے قانون چارہ جوئی، منعقدہ، 1355 ء میں اسی کو نظام حیات بنایا گیا۔برطانوی پارلیمنٹ کے قانون حبس بے جا، منعقدہ، 1679ء میں اس کی نقل کی گئی ہے۔مسلمانوں کا آج سب سے بڑے دشمن امریکہ نے بھی اسی منشور کو اعلان آزادی، منعقدہ، 1776 ء کے بعد دستور میں لایا گیا۔فرانس کے منشور انسانی حقوق، منعقدہ، 1789 ء اسی میثاق کو ہی بروئے کار لایا گیا۔تھامس پین کے انسانی حقوق کے بلندی کے لیے پیش کردہ منشور جو 1792 ء میں لایا گیا تھا اس میں میثاق مدینہ کی بہت ساری باتیں شامل کے گئی۔1941 ء میں پیش کردہ اوقیانوس منشور میں تقریباً ساری باتیں ہی میثاق مدینہ کی شامل تھی۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے لیے جو منشور 1948 ء میں طئے کیا گیا تھا اس میں بھی میثاق کی بہت سی باتیں عمل میں لائی گئی تھی۔اور آج بھی اقوام کے قوانین میں موجود ہے،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیش کردہ میثاق کا مقابلہ کرنے میں یہ تمام منشورات ناکام ہے۔بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی اقتدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میثاق مدینہ کا اہم مقاصد میں داخلی اور خارجی امور میں تمام فیصلے آزادانہ اور خود مختارانہ طورپر ہوناتھا۔ عدل و انصاف بلاتفریق دین و مذہب و رنگ و نسل ’’مساوات‘‘ کی بنیاد پر ہو یعنی انسانیت کو عدل و انصاف میسر ہو کسی خاص گروہ یا دین و مذہب کو نہیں کیا گیا تھا۔امن و امان میں داخلی سیکورٹی اور خارجی سیکورٹی عسکری انداز میں میسر ہو اور نافذ ہونا طئے قرار پایا تھا ۔یعنی فوج ریاست کی مکمل محافط ہو اور ہر فتنے و فساد کو کچلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، اور سب سے اہم مقاصد میں معاشی خوشحالی کا نظام متعارف و نافذ کرانے کی استعداد اور اہلیت اس میثاق کے سربراہ میں موجود ہو، اور تمام فریقین مل کر اس طرف کوشش کریں گے، اور مخالفت نہیں کریں گے۔میثاق مدینہ کے تحت جو شہری محروم معذور‘ بے بس‘ مسکین‘ بیوہ اور یتیم تھے‘ ان کی مدد اور اعانت کے لئے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زکوٰۃ لازم تھی یہ زکوٰۃ بیت المال میں جمع ہوتی تھی اور محتاجوں پر خرچ کی جاتی تھی۔جو شخص بھی مسجد نبوی میں مالی امداد کے لئے آتا،اسے واپس نہیں کیا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرض لے کر بھی حاجت مند کی امداد کر دیا کرتے تھے۔میثاق مدینہ 7300 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔دور حاضر میں آج اسی میثاق کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔

(حوالہ جات۔مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔۔ مستدرک الحاکم۔۔ خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48۔۔۔تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34۔
۔سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177۔
۔تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575
۔ البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294
۔ مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43
۔ ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت
۔ ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء
۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ، دارالارشاد، بیروت
۔ ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
۔میثاقِ مدینہ از ۔ڈاکٹر طاہر القادری
۔حرفِ زار از۔ اوریا مقبول جان
۔ الطبقات الکبریٰ جلد اول صفحہ 260 تا 262
۔ سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 603
۔ سنن ابن ماجہ،الکتاب الجنائز،حدیث 1628
۔ طبقات ابن سعد
۔ صحیح البخاری،حدیث:1264
۔ موطا امام مالک 231/1، و طبقات ابن سعد 292-298
۔مسند احمد 62/6 و 274
۔ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634۔ 635۔636۔637۔
زاد المعاد 1/29۔سو مہان آدمی۔از۔ مائیکل ہارٹ. ( greatest Man The Hundred )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے