تحریر: نازش مدنی مرادآبادی
نکاح جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت مبارکہ ہے وہیں انسانی فطرت کا اہم حصہ بھی ہے بلکہ اس پر فتن دور میں تقریبا ہر بالغ مرد و عورت کے لیے نکاح وجوب کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جس قدر نکاح کو آسان کیا تھا اسی قدر آج کل لوگوں کے بے جا رسم و رواج نے اس نیک کام کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ فی زمانہ حال یہ ہے کہ جس عمر میں بچوں کی شادی ہونی چاہیے وہ سارا وقت والدین اس کی تعلیم و تعلم میں ختم کرادیتے ہیں اور اس کو اسی خیال میں گزار دیتے ہیں کہ ابھی تو یہ اپنے پیروں پہ بھی نہیں کھڑا ہوا بیوی کو کیسے رکھے گا جبکہ یہ خلاف شرع سوچ ہے کہ جب وہ کمانا شروع کرے گا تب شادی ہوگی ٹھیک ہے بندہ کے پاس کوئی ذریعہ معاش بھی ہو مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس بہانہ سے اسکو اس نعمت عظمی سے محروم رکھا جائے یاد رہے روزی روٹی رزاق کائنات کے دست قدرت میں ہے۔ بیوی کے آنے پہلے ہی رزق کا انتظام اللہ کریم خود فرما دیتا ہے
اے کاش میری قوم کے وہ والدین کچھ دیر بیٹھ کر سوچیں کہ ہم تاخیر در تاخیر کر کے بچوں کی زندگی کو کیوں داؤں پر لگا رہے ہیں اس سے پہلے کے آپ کی اولاد غیر مناسب راہیں اختیار کر کے آپ کی عزت کو پامال کرے پہلے ہی اس کی نکاح کی راہیں ہموار کی جائیں بعد میں کف افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہوگا
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیا چگ گئی کھیت
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کس قدر پر فتن دور ہے جس میں ہم جی رہے ہیں ہر طرف فتنہ ہی فتنہ ہے جو کچھ کم تھا تو وہ کمی اس موبائل نے پوری کردی اور اس کا استعمال بھی مخفی نہیں ہے تو بتاؤ اسکے جنسی تعلقات اور خواہشات ماند رہے گے یا بڑھیں گے اور وہ جنسی مریض بنے گا یا نہیں؟ یقیناً سب کا جواب اثبات ہی میں ہوگا جب سارا کچھ آپ کو معلوم ہے تو پھر تاخیر کیوں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ اگر بچہ اپنی خواہشات سے مجبور ہو کر اگر والدین کی یاد دہانی کراتا ہے تو اسکو یہ کہہ کر ذلیل کیا جاتا ہے کہ بے شرم انسان والدین سے یہ باتیں کہی جاتی ہیں میں کہتا ہوں صاحب ! یہ بے حیائی نہیں ہے بلکہ اسکا اپنا حق طلب کرنا ہے جسکو آپ نے بے شرمی کا نام دیا ہوا ہے
اس معاملہ میں جب ہم دور صحابہ کی طرف نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہےصحابہ کرام آپس میں اس معاملے کو لیکر کس قدر حساس ہوا کرتے تھے اس بات کا انداز ابو داؤد شریف کی اس حدیث مبارکہ سے ہو لگایا جا سکتا ہے
عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ إِنِّي لَأَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى، إِذْ لَقِيَهُ عُثْمَانُ فَاسْتَخْلَاهُ، فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَتْ لَهُ حَاجَةٌ، قَالَ لِي تَعَالَ يَا عَلْقَمَةُ، فَجِئْتُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ أَلَا نُزَوِّجُكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِجَارِيَةٍ بِكْرٍ، لَعَلَّهُ يَرْجِعُ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ، لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ. (کتاب السنن سنن ابی داؤد 5/3 حدیث 2039 موسسۃ الریان بیروت لبنان)
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان (رضی اللہ عنہ ) سے ہوگئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا علقمہ ! آجاؤ تو میں گیا تو عثمان (رضی اللہ عنہ) نے ان سے کہا ابوعبدالرحمٰن ! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آجائے۔ عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) نے کہا اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیئے کیونکہ یہ نگاہ کو خوب پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی چیز ہے اور جو تم میں سے اس کے اخراجات کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزہ ہے یہ اس کی شہوت کے لیے توڑ ہوگا
دیکھیے کس احسن انداز میں صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے کے مشوروں سے نکاح کے معاملات کو حل کر لیا کر لیتے تھے حالانکہ وہ موجودہ فتنوں سے پاکیزہ زمانہ تھا مگر پھر بھی ان نفوس قدسیہ کو کس طرح اپنے بھائیوں کے نکاح کا احساس ہوتا تھا آخر میں پھر میں یہی کہوں گا کہ والدین اپنے بچوں کے نکاح کے طرف دھیان دیں اور بروقت انکی ازدواجی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائیں۔
اللہ کریم امت مسلمہ کے حال زار پہ رحم فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویس