تحریر: محمد حسن رضوی
استاذ دارالعلوم اہلسنت نورالعلوم پوکھر بھنڈا نیپال
موجودہ دور میں میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے لوگوں کا یہ ذہن بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ عورت بھی ایک انسان ہے اور ازادی اس کا بھی حق ہے اور اسے پردہ کروانااس کی ازادی اور روشن خیالی کے برخلاف ہے اور یہ ایک طرح کی جبری قید ہے حالانکہ پردہ تو عورت کی ازادی کا ضامن ہے،پردہ اس کی عزت و ناموس کا محافظ ہے، اسی میں عورت کی عزت اور ا س کاو قار ہے۔اج ہر عقلمند انسان انصاف کی نظر سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ جن ممالک میں عورت کے پردے کو اس کے انسانی حق اور ازادی کے خلاف قرار دے کر اس کی بے پردگی کو رواج دیا گیا، ایسے ذرائع اور حالات پیدا کئے گئے جن سے عورتوں اور مردوں کا باہم اختلاط رہے اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوتا رہے اور قانونی طور پر عورت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جب اور جس مرد کے ساتھ چاہے اپنا وقت گزارے اور اپنی فطری خواہشات کو پورا کرے تو وہاں کا حال کیسا عبرت ناک ہے کہ ان کا معاشرہ بگڑ گیا اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا، شادیوں کی ناکامی، طلاقوں کی تعداد اور حرامی بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوگیا اور یہ سب تباہی عورت کو بے پردہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔
جبکہ پردے کے تعلق سے فرمان الٰہی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے
{و لا یبدین زینتهن: اور اپنی زینت نہ دکھائیں ۔}اس آیت کریمہ کی تفسیر صراط الجنان میں صاحب تفسیر صراط الجنان فرماتے ہیں: ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ’’زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیوراورسرمہ وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے اس لئے ایت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں جہاں زینت کرتی ہیں جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں ، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں ،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے اس لئے ان اعضا کو ظاہر کرنے میں حرج نہیں ۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔)( مدارک، النور، تحت الایۃ: ۳۱، ص۷۷۷)
اب یہاں پردے سے متعلق تین عظیم واقعات صراط الجنان کے حوالے سے ملاحظہ ہو:
(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ پردے کی ایات نازل ہونے کے بعد (میرے رضاعی چچا) افلح نے مجھ سے میرے پاس انے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا:میں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتی جب تک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں کیونکہ ابو القعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ ابو القعیس کی بیوی نے دودھ پلایاہے۔جب رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان سے صورت حال عرض کی تو ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رضی اللہ تعالی عنہا، افلح کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں ۔‘‘( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الاحزاب، باب قولہ: ان تبدوا شیءا او تخفوہ۔۔۔ الخ، ۳/۳۰۶، الحدیث: ۴۷۹۶)
(2)…خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ تشو یش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں وفات کے بعد میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں کی نظر نہ پڑ جائے!ایک موقع پر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی:میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر اور ایک ڈولی کی سی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈالدیتے ہیں ۔ پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑااور اس پر کپڑا تان کر خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا کو دکھایا۔اسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ بس اپ کی یہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد دیکھی گئی۔( جذب القلوب، باب دوازدہم در ذکر مقبرۂ شریفۂ بقیع۔۔۔ الخ، ص۱۵۹)
(3)…حضرت ام خلاد رضی اللہ تعالی عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا، آپ رضی اللہ تعالی عنہا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنقاب ڈالے باپردہ بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں حاضر ہو ئیں ، اس پر کسی نے حیرت سے کہا:اس وقت بھی آپ نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے!اپ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا: میں نے بیٹاضرور کھویا ہے لیکن حیا ہر گز نہیں کھوئی۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم، ۳/۹، الحدیث: ۲۴۸۸)
مذکورہ بالا حدیث پاک اور ان تین واقعات میں ان عورتوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اللہ تعالی کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کرنے کی بجائے دنیا کے ناجائزفیشن اور رسم و رواج کو اپنانے میں بڑی کوشش کرتی ہیں اور پردے سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتی ہیں ۔ اللہ تعالی انہیں عقل سلیم اور شرعی احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔