مذہبی مضامین

صرف میری دکان چلے۔۔۔۔۔۔۔

ازقلم : شیبان فائز (جلگاؤں)
۔8669233570

عزیز دوستوں آج قلم الجھن میں ہے کیونکہ آج یہ وہ لکھنے کی جرات کررہا ہے جو شاید سب کو پسند نہ آئے ۔ میرے دوستوں یہاں دکان سے مراد وہ دکان نہیں جو آپ کے گلی محلوں میں ہیں ۔ یہاں انساں کی وہ دکان مراد ہے جو اسے سب سے بڑا سمجھنے پر مجبور کرتی ہے ۔ وہ دکان جو اس کو منتشر کرتی ہے ۔ جو اس کے دماغ میں فطور ڈالتی ہے ۔ جو اس کی سوچ کو شہرت کا غلام بناتی ہے ۔ جو اس کے نفس کو حسد کی آماجگاہ میں تبدیل کرتی ہے ۔ جی ہاں آپ نے بھی بہت سے ایسے دکاندار دیکھے ہوگے جو صرف شہرت کے لیے لوگوں کے کام کرتے ہیں ۔ جو شہرت کی خاطر ہر خاص و عام کو بدنام کرتے ہیں ۔ ان میں کچھ کا تعلق سماج سے ہوتا ہیں اور کچھ کا تعلق مذہب سے ۔ چند وہ جو سماج کلیان کے نام پر محض اپنی واہواہی کی خاطر سماجی کام کرتے ہیں ۔ اور چند وہ جو اپنی مسلک اور فرقہ کو باقی رکھنے کے لیے اس دکان کا سہارا لیتے ہیں ۔ یقین جانے اس دنیا میں کبھی وہ لوگ انقلاب نہیں لاسکتے جو صرف شہرت کی خاطر امدادی کام کریں اور وہ دین کا بڑا نقصان کرتے ہیں جو حق بات کو محض اس لیے چھپاتے ہیں تاکہ ان کے مسلک اور فرقوں پر تالے نہ لگ جائے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جب بھی کسی کی مدد کریں تو یہ سوچ کر کرے کہ اس کا اجر اللّٰہ ہی کے پاس ہے اور وہی بہتر بدلہ عطا کرنے والا ہے ۔ اور ہرگز ان مذہبی رہنماؤں کی پیروی نہ کرے جو اسلام کی بجائے مسئلک کی تشہیر کرتے ہو ۔ یہ چند وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی دکانیں کبھی بند نہ ہو مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ شہرت کمانے میں ایک عرصہ گزر جاتا ہے مگر اس کے جانے میں ایک پل کا بھی وقت نہیں لگتا ۔ اور وہ دکاندار جو امت کو یہ سکھانے کی بجائے کہ وہ اس جہاں کا خلیفہ ہے ، وہ اس زمیں کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ وہ محکوم نہیں بلکہ حاکم ہے ۔چند دینی عقائد میں الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی دکانوں پر سیل لگائے اور ایسے انقلاب کی طرف گامزن ہو جس کا مقصد شہرت سے بہت بالاتر رضائے الٰہی ہو اور مسئلکوں سے آگے بڑھ کر اقامتِ دین ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے