از: سید اولاد رسول قدسی مصباحی
روز چھپتی ہے یہ خبر تازه
جل گئے بے گھروں کے گھر تازہ
یوں مسلط درندگی ہے یہاں
خون پی کر ہوا بشر تازه
تیره و تار لیلئِ شب سے
پھوٹتی ہے نئی سحر تازہ
اشک بہتے ہیں چشم غربت سے
ہاتھ میں ظلم کے ہے زر تازه
درد میں بھیگتا رہا ساحل
موج کرتی رہی سفر تازہ
کیسے پرواز فکر میں ہو جمود
ہیں ابھی فن کے بال و پر تازه
درد وغم کے گہن میں جل کر بھی
قدسیؔ رقصاں رہا قمر تازه