خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
اپنا اسے بنانا ذرا دیکھ بھال کے
اس کو گلے لگانا ذرا دیکھ بھال کے
بیٹھے لٹیرے حسن کے ہر ایک موڑ پر
باہر تمہیں ہے جانا ذرا دیکھ بھال کے
دیوار کے بھی کان ہیں معلوم ہے تمہیں
تم رازِ دل بتانا ذرا دیکھ بھال کے
چرچے تمہارے حسن کے ہر سمت ہو رہے
رکھنا حسیں خزانہ ذرا دیکھ بھال کے
غفلت کی نیند سو رہا بے فکر ہے بہت
لیکن اسے جگانا ذرا دیکھ بھال کے
دستور بھی عجیب زمانہ عجیب ہے
محل میں انکی جانا ذرا دیکھ بھال کے
کہتا فیضان ہے اپنے محبوں سے ہر گھڑی
غیروں سے دل لگانا ذرا دیکھ بھال کے