غزل

غزل: کانٹوں کا ہے عروج گلابوں کے آس پاس

نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسی
نیویارک امریکہ


جاتے نہیں کبھی جو نصابوں کے آس پاس
بے معنی رہ گۓ وہ کتابوں کے آس پاس

پھر کیف ہے بہار کے خوابوں کے آس پاس
کانٹوں کا ہے عروج گلابوں کے آس پاس

مہکا ہوا ہے آج فلک کا یہ گلستاں
ہے چاندنی قمر کی شہابوں کے آس ہاس

مسکان ہے کھجور کی ٹہنی کے ہونٹ پر
پھر تشنگی کھڑی ہے سرابوں کے آس پاس

یہ جو ستارا ٹوٹ کے دھرتی پہ گر گیا
رکھ دو اسے سحر کے نقابوں کے آس پاس

ہر ایک شے ہے گوش بر آواز چار سو
رس گھولتا ہے کون ربابوں کے آس پاس

خواہش ہے گر دوام سے ہو منسلک حیات
ڈھونڈو نہ پھر ثبات حبابوں کے آس پاس

لمحات زندگی کے سلگتے ہوۓ سوال
عرصے سے منتظر ہیں جوابوں کے آس ہاس

موسم کے بدلے بدلے سے تیور کو دیکھ کر
سہما ہوا قمر ہے سحابوں کے آس پاس

اُس سے ہی پھوٹتی رہی عبرت کی روشنی
گذرا جو وقت خانہ خرابوں کے آس پاس

میری طفولیت کا رہا سینہ چاک چاک
روتی رہی ضعیفی شبابوں کے آس ہاس

مے خوار کے سرور کا یہ قتل عام ہے
خوں سے بھرے ہیں جام شرابوں کے آس ہاس

اوراق دل کی آپ حفاظت تو کیجئیے
قدسیؔ لگے ہیں کرم کتابوں کے آس پاس

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے