نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسی
نیویارک امریکہ
جاتے نہیں کبھی جو نصابوں کے آس پاس
بے معنی رہ گۓ وہ کتابوں کے آس پاس
پھر کیف ہے بہار کے خوابوں کے آس پاس
کانٹوں کا ہے عروج گلابوں کے آس پاس
مہکا ہوا ہے آج فلک کا یہ گلستاں
ہے چاندنی قمر کی شہابوں کے آس ہاس
مسکان ہے کھجور کی ٹہنی کے ہونٹ پر
پھر تشنگی کھڑی ہے سرابوں کے آس پاس
یہ جو ستارا ٹوٹ کے دھرتی پہ گر گیا
رکھ دو اسے سحر کے نقابوں کے آس پاس
ہر ایک شے ہے گوش بر آواز چار سو
رس گھولتا ہے کون ربابوں کے آس پاس
خواہش ہے گر دوام سے ہو منسلک حیات
ڈھونڈو نہ پھر ثبات حبابوں کے آس پاس
لمحات زندگی کے سلگتے ہوۓ سوال
عرصے سے منتظر ہیں جوابوں کے آس ہاس
موسم کے بدلے بدلے سے تیور کو دیکھ کر
سہما ہوا قمر ہے سحابوں کے آس پاس
اُس سے ہی پھوٹتی رہی عبرت کی روشنی
گذرا جو وقت خانہ خرابوں کے آس پاس
میری طفولیت کا رہا سینہ چاک چاک
روتی رہی ضعیفی شبابوں کے آس ہاس
مے خوار کے سرور کا یہ قتل عام ہے
خوں سے بھرے ہیں جام شرابوں کے آس ہاس
اوراق دل کی آپ حفاظت تو کیجئیے
قدسیؔ لگے ہیں کرم کتابوں کے آس پاس