اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
وانم باڑی، تمل ناڈو
یہاں جو سوچ ہی کچھ طالبانی رکھتے ہیں
وہ اپنی نسلوں سے کب خوش گمانی رکھتے ہیں
اُنہیں تو صاف بھی گدلا دکھائی دیتا ہے
جو اپنی آنکھوں میں نفرت کا پانی رکھتے ہیں
زمیں پہ جینے کا اُن کو ہنر نہیں آتا
ہے ناز جن کو ہنر آسمانی رکھتے ہیں
کبھی دلیل سے ہوتے نہیں ہیں وہ قائل
جو اپنے لہجوں میں شعلہ بیانی رکھتے ہیں
ہمارے دم سے ہیں راہِ وفا میں ہنگامے
ہم اپنے خوں میں غضب کی روانی رکھتے ہیں
بُڑھاپا اُ ن کا یقینا سکوں سے گزرے گا
جو کارِ خیر میں اپنی جوانی رکھتے ہیں
چھپائے رکھتے ہیں دل میں تمام رنج و الم
ہم اپنے چہرے پہ بس شادمانی رکھتے ہیں
وطن پرست رفیقیؔ وہ ہو نہیں سکتے
خود اپنے لوگوں سے جو بد گمانی رکھتے ہیں