نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسی مصباحی
نیویارک امریکہ
لقمان کی حکمت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
آلام میں راحت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
تلخی میں طبیت کی تغیر کے کھلیں پھول
نیموں سے حلاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
افکار کی سنگین لڑائی کی زمیں پر
لفظوں کی شہادت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
تم طائر تخئیل کو دے کر نئی سمتیں
شعروں میں علامت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
تم کر کے فنا خود کو سمندر میں انا کے
لوگوں کی ملامت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
اب چھوڑ کے گلزار صراحت کی سیاحت
اغلاق سے ندرت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
لمحات کے برفیلے پہاڑوں سے اتر کر
سوچوں کی حرارت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
حالات کے ان گرم مکانوں سے نکل کر
سردی میں سیاحت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
تم ہجر کی بے تاب شب تار میں قدسیؔ
اشکوں کی سخاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے