ازقلم: جمال احمد صدیقی اشرفی القادری
ملعونین اینما ثقفو ا اخذواوقتلوا تقتیلا
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہرقوم اپنے مستقبل کو تابناک وروشن بنانے کے لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر اپنی داستان عروج وزوال کی ورق گردانی کرکے مستقبل کے لئے نہ صرف خدوخال وضع کرتی ہے بلکہ انہیں عملاً اپنے اوپر نافذ بھی کرتی ہے ۔ جب ہم امت مسلمہ کی تاریخ عروج وزوال کا بنظرِ عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں ایک بنیادی واساسی نکتہ ہی اس کے عروج وزوال میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ وہ نکتہ ذاتِ مصطفیٰ ﷺ سے تعلق وربط ہے ۔
جب یہ تعلق اسوۂ صدیقی وبلالی کی صورت میں استوار ہوتا ہے تو یہی امت کے عروج وبلندی کا نکتۂ اول بن جاتا ہے ۔ مگر جب بدقسمتی سے طاغوتی وابلیسی قوتوں کی اثر پذیری سے اس تعلق میں ضعف وکمی کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور یہ کسی سطح پر بولہبی وبوجہلی صورت میں عیاں ہوتا ہے تو یہی امت کی پستی وزوال کا نکتہ آغاز ٹھہرتا ہے ۔
بلاشبہ ایک امتی کا اپنے نبی کے ساتھ تعلق ہرقسم کے خونی ۔ جانی ۔ مالی ۔ حسبی اور نسبی تعلقات سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ انسان اپنی جان ومال ۔ اولاد واقربا ۔ جاہ ومنصب اور اپنی عزت وناموس کے تحفظ کی خاطر سب کچھ قربان کرنے سے کبھی بھی دریغ نہیں کرتا ۔ باوجود اس کے یہ اس کے مادی بقائے تعلق کی یک جہتی تصویر ہے ۔ ذرا اندازہ کیجئے جہاں اس کا یک جہتی تعلق نہیں ۔ ہمہ جہتی تعلق ہے ۔ جزوی نہیں ۔ ہمہ پہلو ہے ۔ خاص فرد کا انفرادی نہیں بلکہ ہرفرد کا اجتماعی تعلق ہے ۔ جو نہ صرف مادی بلکہ روحانی وقلبی بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ایمانی وعرفانی بھی ہے ۔ اس تعلق کی حرمت وناموس کے تحفظ کے لئے اپنا سب کچھ لٹانے میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے عام آدمی کی عزت وناموس پر حملے سے محدود وقریبی حلقہ اور فردِ خاص ہی متاثر ہوتا ہے جبکہ اللّٰہ کے نبی کی عزت وناموس پر حملے سے اور شانِ اقدس میں ادنٰی سی گستاخی وبے ادبی ۔ اہانت وتحقیر سے ایک فرد یا چند افراد نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور ہرامتی جہاں کہیں بھی وہ رہ رہا ہو وہ متاثر ہوتا ہے ۔ پھر نہ صرف جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ انتقام کا جذبہ بھی فروغ پاتا ہے ۔ صرف اس لئے کہ یہاں معاملہ دین و ایمان کی اساس وبنیاد کے قیام واستحکام کا ہے ۔ سوہرکوئ ناموسِ رسالت کے تحفظ کی خاطر کٹ مرتا ہے ۔ جان کو ہتھیلی پر رکھ کر گستاخ رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا نہ صرف عزم بالجزم کرتا ہے بلکہ عملاً ایسا کر بھی دکھاتا ہے ۔ اسی جذبے اور طرزِ عمل سے ہی ایمان اور دین کی عمارت کا قیام اور دوام ہے ۔ یہی شعار مسلمانی ہے اس لئے کہ ہر کوئی جانتا ہے ۔
آبروئے ما زنام مصطفیٰ است ۔
حضور ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی وبے ادبی ۔ اہانت وتحقیر کرنے والا خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم قرآن کے اس حکم ۔ ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلا ۔ کے مطابق بطورِ حد واجب القتل ہے ۔ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی عدالت ۔ سربراہ حکومت ۔ قاضی اور حاکم وقت سوئی کے نوک کے برابر بھی اس سزا میں نہ تبدیلی کرسکتا ہے اور نہ تخفیف وترمیم ۔
مختصر یہ کہ قرآن وسنت ۔ آثارِ صحابہ ۔ اقوالِ ائمہ وفقہاء سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ شانِ رسالتمآب ﷺ میں اشارہ کنایہ ۔ ارادہ یا غیر ارادہ ۔ نیت یا بغیر نیت کے ۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی صورت میں بھی ادنیٰ سی گستاخی وبے ادبی ۔ اہانت وتحقیر کا مرتکب شخص بطورِ حد واجب القتل ہے ۔ حتیٰ کہ اسے توبہ کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا ۔
( احکامِ اسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب )
باری تعالیٰ ہرمسلمان کو محبت وعشق رسول ﷺ اور اطاعت واتباع مصطفیٰ ﷺ کا پیکرِ مجسم بنائے اور حضور سرورِ کائنات ﷺ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کی توفیق خاص بھی عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین وعلی آلہ وصحبہ واہلبیتہ اجمعین