از: زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر۔ یوپی
ایک سال ہونے کو ہے، پورا ملک جہاں ایک طرف کرونا کی آنے جانے والی موہوم لہروں سے پریشان ہے تو وہیں دوسری جانب بر سر اقتدار سیاسی جماعت کی من مانی اور تانا شاہی حکومت سے جوجھ رہی ہے، اور جمہوریت کا کا ستون سمجھی جانے والی صحافت بھی اپنے ایمان کا سودا کر چکی ہے جو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے بجائے حکومت کے سامنے جبیں سائی کرتی دکھائی دے رہی ہے،ان سب کے باوجود بھی اگر کوئی بمشکل مظلوموں کی آواز بننا چاہتا ہے تو سلاخیں اس کا مقدر بنا دی جا رہی ہیں، ایسا ننگا ناچ ملک بھارت میں شاید اس سے پہلے کبھی بھی نہ دیکھا گیا ہوگا۔۔۔
ادھر کچھ دنوں سے کرونا کی آمد کی خبر زوروں پر ہے، اخبارات کی سرخیاں ایسا ہی کچھ درشا رہی ہیں، اور ایک بار پھر سے لاک ڈاؤن کی اصطلاح کا چرچا چوک چوراہوں کی زینت بنتا دکھائی دے رہا ہے، آخر یہ کیسی بیماری ہے جو رہ رہ کر نمودار ہوتی ہے اور سیاسی بازی گروں کا مکمل ساتھ دیتی دکھائی دیتی ہے، ریلیوں میں پرچار پرشار کرتے وقت یہ ناپید ہوتی ہے، اور جب ظالمانہ قانون کی مخالفت میں آندولن اور کیا جاتا ہے تو یکا یک بیدار ہو جاتی ہے، این آر سی، اور سی اے اے، کے خلاف ہو رہے احتجاج کو بند کرنے کا جب کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو کرونا نے اسے ختم کرنے میں بھر پور مدد کی اور اب جبکہ ملک گیر سطح پر کسان آندولن کا زور بڑھتا جا رہا ہے اور اسے ختم کرنے کی کوئی تدبیر دور دور تک سجھائی نہیں دے رہی ہے تو ایک بار پھر کرونا کال آتا دکھائی دے رہا ہے۔۔
آخر یہ کیا بلا مصیبت ہے کہ بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ دکھا کر من مانی قانون کے نفاذ کی کوشش کی جارہی ہے، اس کرونائی لہر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بار کسان آندولن بھی کہیں اس کے نذر نہ ہو جائے، اور شاہین باغ جیسا ہی اس کا حال نہ ہو۔۔۔ یہ ایک اندیشہ ہے باقی آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟