تعلیم

کتابوں کا ادب کریں

ازقلم: خلیل احمد فیضانی، جودھپور راجستھان

علم ایک نور ہے, یہ نور جہاں صحراۓ ظلمات کی تاریکیاں کافور کرتا ہے وہیں تہذیب و تمدن کا جوہر بھی عطا کرتا ہے۔
علم ادب سکھاتا ہے , باہمی روابط کے گر سے آشنا کرتا ہے ,خالق کی معرفت و مخلوق کی خدمت کے جذبہ جاویداں سے فکر انسانی کو سرشار رکھتا ہے۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حصول علم کے ذرائع کیا کیا ہوسکتے ہیں؟
گذشتہ ادوار ہوں یا عہد رواں ذرائع مختلف ہوتے رہتے ہیں , طلبہ کے مزاج تنوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسا عظیم المرتبت ذریعہ آج بھی جوں کا توں باقی ہے جیسا زمانہ ماضی میں تھا۔
وہ ذریعہ ہے "کتاب” بے شک مقتضاۓ حالات کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع بدلے اور بدلنے بھی چاہیے لیکن ایک کتاب ہی وہ واحد و یگانہ ذریعہ ہے جو گردش ایام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس کی مقدار مزید اضافہ ہوا۔
یہاں سے اس کی اہمیت و افادیت اجاگر ہوتی ہے کہ دیگر وسائل تغیر پذیر ہوۓ لیکن یہ نہیں بدلا تو یقینا یہ ایک اہم ذریعہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ادب کریں ,اس کی قدر کو پہچانیں ,اس کا بھی ایک حق ہے اس حق کی ادائیگی میں بالکل کوتاہی نہ برتیں۔
ہمارے اسلاف نے اس گوشہ کو بہت ہی حساسیت سے لیا, اتنی احتیاط برتی کہ پڑھ سن کر ہی قوت فکر تاباں ہوجاۓ
مکمل کتاب کا ادب تو ایک امر عظیم ہے ہمارا دین تو ہمیں حروف تہجی کے آداب سے بھی آشنا کرتا ہے کہ جہاں الف ,با وغیرہ مرقوم ہوں اس جگہ کی قدر کرو راہ چلتے کہیں بوسیدہ ورق مل جاۓ معطر کرکے پلکوں پہ رکھ لو پھر اگر یہ وسوسہ لاحق ہو کہ اس طرح کے ادب کا صلہ کیا ملے گا تو حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا مطالعہ کرلو آپ کا شمار اولیاۓ کبار میں ہوتا ہے آپ کی ولایت کا سبب ادب تسمیہ شریف ہے۔
آپ کی توبہ کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بالکل عنفوان شباب پر ہیں میخانے کا رخ کیے ہوۓ تشریف لیے جارہے ہیں راستے میں ایک بوسیدہ کاغذ پر ,,بسم اللہ الرحمن الرحیم ,,مسطور پایا جذباتی ہوگئے کہ میرے رب کا نام اس حالت میں!
بلا تاخیر اس پرچہ کو وہاں سے اٹھایا میخانے کا عزم منسوخ کیا گھر تشریف لاۓ عطرسے معطر کیا گھر کی محفوظ و بلند جگہ پر رکھا۔
دوسرے ہی دن حضرت ذو النون مصری رضی اللہ تعالی عنہ پیغام ولایت لے کر پہنچ گئے اور گویا یوں گویا ہوۓ کہ اے مرد قلندر ! تمہارے ادب نے اپنا رنگ دکھا دیا آج تم ایک عام انسان نہیں رہے محبوبان خدا کی صف میں شامل ہوچکے ہو
مدعا یہ کہ آپ نے تسمیہ شریف کا احترام کیا تو ولایت نصیب ہوگٔی ہم بھی اگر اپنے تٔیں ان کی روش پہ چلیں توبادشاہت نہیں کم از کم ان کی رقیت تو نصیب ہوہی جائے گی۔ ان شاءاللہ تعالٰی عزوجل
اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ دوسری بار حج کے لیے بیت اللہ شریف و مدینہ المنورہ تشریف لے گءے تو آپ کے شہزادے حضرت علامہ مولانا حامد رضا رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے آپ کو وہاں کتابوں کی ضرورت پڑ تی تھی اس لیے کبھی کبھار حرم کی لائبریری میں تشریف لے جاتے لائبریری میں ایک دن بعد عصر مفتی حرم تصنیفی کام انجام دے رہے ہیں اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے شہزادے چند حوالہ جات کی تصحیح کے لیے وہاں تشریف لے جاتے ہیں مجدد اعظم تو سیدھا لائبریری میں داخل ہوجاتے ہیں مگر آپ انہیں مفتی صاحب کے پاس تشریف لے گئے جو مفتی حرم تھے قریب گئے تو دیکھا کہ مفتی حرم اپنے کام مشغول ہیں اور نسیان سے سیاہی کی دوات کتاب پر رکھی ہؤی ہے آپ نے دھیرے سے اس دوات کو وہاں سے ہٹایا اور اپنی انگلی مبارک کو وہاں رکھ دیا تاکہ ہوا کی وجہ سے کتاب کے اڑاق منتشر نہ ہونے پاے جب مفتی صاحب قبلہ نے اس چیز کو محسوس کیا تو آپ کی طرف متوجہ ہوۓاور فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا آپ نے فرمایا فقہ کی کتابوں میں اس کو خلاف اولی لکھا ہے انہوں نے کہا میں مفتی ہوں میں نے کبھی نہیں پڑھا تم جوان بچے ہو کہاں سے پڑھ لیا آپ نے فرمایا اسی کتاب سے جس کی مدد سے آپ کچھ تحریر فرمارہے ہیں وہ کتاب فتح القدیر تھی مفتی صاحب نے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا کہ دکھاو کہاں ہے آپ نے فورا کتاب کو لیا اور ایک جزٔیہ کی روشنی میں یہ ثابت کردیا کہ یہ امر خلاف اولی ہے تب مفتی صاحب کو یہ سمجھ آگیا کہ واقعی یہ امر خلاف اولی ہے حالاں کہ وہ بھی اس نوعیت کے ادب کے قائل تھے۔
اب ہمیں خوب اچھے طور سے پتہ چل گیا کہ دینی کتابوں کا نیز دیگر دینی ذخائر کا کس قدر ادب ہونا چاہیے ,کتاب کا ادب یقینا علم کا فیضان نصیب کرتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ کتابوں کا خاص طور سے ادب کریں اور علمی فیضان سے اپنے آپ کو منور کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے