تحقیق و ترجمہ تنقید و تبصرہ عقائد و نظریات

فتاویٰ مظہریہ کی عبارتوں کی توضیح (قسط اول)

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

سوال: فتاویٰ مظہریہ میں ہے کہ مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی موت ہوگئی۔اب ان لوگوں کوکافر کہنے سے سکوت کرنا چاہئے،جب کہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ العزیز ان لوگوں کے بارے میں استفتا لے کر حرمین طیبین حاضر ہوئے ہوئے تھے تو چارلوگوں میں سے دو کی موت ہوچکی تھی۔

اما م اہل سنت قدس سرہ القوی 1323ہجری میں حر مین طیبین گئے۔حج کی ادائیگی کے بعد ماہ ذی الحجہ 1323 ہجری سے استفتا کے جواب وتصدیقات کا سلسلہ شروع ہوا،اور 1324تک جاری رہا۔

اشخاص اربعہ میں سے قاسم نانوتوی کی موت 04:جمادی الاولیٰ1297 مطابق15:اپریل 1880کوہوئی۔

رشید احمد گنگوہی کی موت 09:جمادی الثانی 1323 مطابق11:اگست 1905کوہوئی۔

یعنی قاسم نانوتوی کی موت کے چھبیس سال بعداستفتا لے کر گئے اور جس سال رشید احمدگنگوہی کی موت ہوئی،اسی سال اس کی موت کے چند ماہ بعد استفتا لے کر حرمین طیبین گئے۔

فتاویٰ مظہریہ سے ایک سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔

سوال نمبر247:مولوی اسماعیل دہلوی،مولانا محمدقاسم نانوتوی (بانی مدرسہ دیوبند)، مولوی اشرف علی،مولوی رشیداحمد گنگوہی، مولوی خلیل احمد انبیٹوی وغیرہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں جوگستاخانہ عبارتیں لکھی ہیں، ان کی وجہ سے ان پر کفر کا حکم لگایا جائے یانہیں؟

مستفتی محمد ایوب الرحمن خطیب جامع مسجد سبزی منڈی خانیوال (مغربی پاکستان)

الجواب:
اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں سے جو بعض اقوال صادر ہوئے ہیں، وہ یقینا کفر ہیں، لیکن اب جب کہ یہ لوگ انتقال کر گئے،اوریہ معلوم نہیں کہ توبہ کی یا نہ کی،اور ان کی عاقبت کیسی ہوئی ہے،اس لیے میرے نزدیک ان کے حق میں سکوت بہتر ہے۔ البتہ جو شخص ان عبارتوں کا قائل ہو، یقیناکافر ہے۔

فقط محمدمظہراللہ غفرلہ:مسجد جامع فتح پوری (دہلی)

(فتاویٰ مظہریہ:جلد دوم:ص374-ادارہ مسعودیہ کراچی)

جواب:فتاویٰ مظہریہ کی منقولہ بالا عبارت میں ہے کہ اشخاص اربعہ کے قابل اعتراض اقوال یقینا کفریہ اقوال ہیں اور ایسے اقوال کفریہ کا قائل یقینا کافر ہے۔

اشخاص اربعہ سے متعلق سکوت کو اپنا مسلک بتایا۔تمام مسلمانوں کا مسلک نہیں بتایا۔
انہوں نے اپنا مسلک سکوت کیوں بتایا،اس کے اسباب پر غور کیا جائے۔اس فتویٰ میں موت اورتوبہ کا ذکر ہے۔

(1)یہ فتویٰ اشخاص اربعہ کی موت کے بعدلکھاگیا ہے،کیوں کہ اس میں ذکر ہے کہ ان لوگوں کی موت ہوگئی،اور توبہ کا علم نہیں تو میرے نزدیک ان کے حق میں سکوت بہتر ہے۔

طواغیت اربعہ میں سب سے اخیر میں تھانوی کی موت 16:رجب المرجب1362 مطابق 20:جولائی 1943کوہوئی۔
اس سے واضح ہوا کہ سوال میں نقل کردہ فتویٰ اشخاص اربعہ کی موت کے بعدکا ہے۔

(2)سائل نے اپنا پتہ مغربی پاکستان لکھا ہے اور تقسیم ہند 1947 میں ہوئی۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ فتویٰ تقسیم ہندکے بعد کا ہے۔

تکفیر سے سکوت کا سبب موت ہے یا توبہ کی خبر؟

(1)فتاویٰ مظہریہ میں منقولہ بالا فتویٰ کے بعدایک فتویٰ میں ہے کہ جس کو اہل دیوبندکی کفر یہ عبارتوں کا علم ہو، اور یہ معلوم ہوکہ وہ لوگ بلا توبہ مرے ہیں۔پھر بھی وہ ان لوگوں کو مومن اور اپنا پیشوا مانتا ہوتو اس کی اقتدا میں نماز جائز نہیں،اور جو ان لوگوں کی طرف منسوب ہیں،ان کی اقتدا میں بھی نمازنہ پڑھی جائے۔اگرنماز پڑھ لی ہوتو نماز دہرائی جائے،تاکہ فرض ادا ہوجائے۔

اس سے معلوم ہو ا کہ مفتی موصوف کا مسلک سکوت موت کے سبب نہیں،بلکہ کسی خاص سبب کی بنیادپر ہے۔

(2)قادیانی کی موت کے 54سال بعد 1379ہجری میں مفتی موصوف نے قادیانی کو کافر قراردیا۔اس سے واضح ہوگیاکہ اکابر دیوبندکی تکفیر سے مفتی موصوف کا مسلک سکوت موت کے سبب نہیں ہے،بلکہ کسی خاص سبب کی بنیادپر ہے۔

(3)تھانوی کی موت کے سترہ سال بعداگست:1957 میں فتویٰ دیا کہ اکابر دیوبند کی کفریہ عبارتوں کا حکم شرعی ماننا لازم ہے۔

اس سے معلوم ہواکہ مفتی موصوف کا مسلک سکوت موت کے سبب نہیں ہے،بلکہ کسی خاص سبب کی بنیادپر ہے۔

کیا موت کے سبب تکفیر سے سکوت ہے؟

مفتی موصوف کے دیگر فتاویٰ کو دیکھ کر یہ فیصلہ بالکل واضح ہے کہ اشخاص اربعہ کی تکفیر سے سکوت موت کے سبب نہیں،نہ ہی محض احتمال توبہ کے سبب ہے،بلکہ توبہ کی غیر یقینی خبر کے سبب ہے۔

دیابنہ اپنے اکابر کو مومن ثابت کرنے کے واسطے کسی کو بھی کچھ بتا سکتے ہیں۔ توبہ کی جھوٹی خبر بھی بتا سکتے ہیں۔

دیابنہ عرب ممالک میں جاکر سنی حضرات کے پاس سنی بن جاتے ہیں اور وہابیوں کے پاس وہابی۔

مفتی موصوف کا انداز تحریرودیگر فتاویٰ کی عبارتیں اس بات پرقرینہ ہیں کہ مفتی موصوف کو اکابر دیوبند کی توبہ کی خبر دی گئی ہے،لیکن انہیں یقین نہیں ہوسکا تواپنا مسلک سکوت بتایا۔یہ اپنا مسلک انہوں نے بیان کیا۔

کیا سکوت کا حکم سب کے لیے ہے؟

اگر صاحب فتاویٰ مظہریہ اکابر دیوبند کی تکفیرسے سکوت کا حکم سب کے لیے دیتے تو اشخاص اربعہ کو مومن ماننے والے کی اقتدا میں نماز کے عدم جواز کا فتویٰ نہیں دیتے۔

موصوف نے ذی الحجہ:1379کے فتویٰ میں اشخاص اربعہ کو مومن ماننے والے کی اقتدا میں نماز کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

اشخاص اربعہ میں سے تھا نوی کی موت سب سے آخر میں 1362ہجری میں ہوئی۔

تھانوی کی موت کے سترہ سال بعد1379میں سوال ہوا،جس کے جواب میں آپ نے نماز کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔

سوال اورجواب درج ذیل ہے۔

سوال نمبر249:دیوبندی حضرات کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟اور کیا ان سب کو کافر کہا جائے،یا بعض کو؟اور ان سے رشتہ رکھنا،شادی بیاہ کرنا کیسا ہے؟کتاب ”مالا بدمنہ“ میں ترجمہ باب الکفر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے لکھا ہے کہ:”میں اہل قبلہ کوکافر نہیں جانتا اور جو ان کوکافر جانے،میں اس کوکافر جانتا ہوں“۔

ازراہ کرم ان سوالات کے جوابات بالتفصیل تحریر فرما کر ممنون فرمائیں:بینوا توجروا

السائل:رحیم بخش:ساکن کانکر کھیڑہ-9:ذی الحجہ ۹۷۳۱؁ھ

الجواب وہوالموفق للصواب

یہ تو صحیح ہے کہ کسی اہل قبلہ کوکافر کہنا جائز نہیں،لیکن اہل قبلہ سے حقیقۃً وہ لوگ مراد ہیں جو نہ کوئی عقیدہ کفریہ رکھتے ہوں،نہ ان سے کوئی ایسا قول یا فعل سرزد ہوا ہو جو موجب کفر ہو،گووہ مرتکب کبائر ہوں،بر خلاف خوارج کے کہ وہ مرتکب کبائر کوبھی کافر کہتے ہیں۔

یہ ہرگز مراد نہیں کہ جو قبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھتا ہے،وہ اہل قبلہ ہے،اگرچہ وہ بت کوپوجتا ہو۔ اللہ ورسول (جل وعلا وصلی اللہ علیہ وسلم)کی شان میں گستاخیاں کرتا ہو، اور ضروریات دین میں سے کسی امر کا منکر ہوکہ ایسا شخص بالاجماع کا فر ہے،جو نص قطعی سے ثابت ہے۔چناں چہ مولیٰ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(یحلفون باللّٰہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر وکفروا بعد اسلامہم)

نیز فرماتا ہے:(لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب: الاٰیۃ)

اور رد المحتار میں ہے:(لا خلاف فی کفر الخالف فی ضروریات الاسلام)

الحاصل جب یہ معلوم ہوگیا۔اگر چہ کوئی صورۃً اہل قبلہ ہو،لیکن اگر اس سے کوئی کفر سرزد ہوگا تووہ کافر ہوجائے گا، اوریہ بھی ثابت ہوا کہ جو ایسے شخص کے متعلق بالیقین یہ جانتے ہوئے کہ اس سے ایسا کفر صادر ہوا ہے جس میں کوئی صحیح تاویل نہیں ہوسکتی،پھر بھی اسے مسلمان سمجھے گا تووہ بھی کافر ہوجائے گا:لقولہ تعالیٰ:(ومن یتولہم منکم فانہ منہم)

تو ایسی صورت میں نہ کسی دیوبندی کی تخصیص کی جا سکتی ہے،نہ کسی بریلوی کی،نہ کسی وہابی کی ہو سکتی ہے،نہ کسی سنی کی،اوریہ حکم نہ کسی نجدی کے ساتھ خاص ہے،نہ کسی مکی مدنی کے ساتھ۔

جس سے بھی ضروریات دین میں سے کسی شئ کا خلاف وقوع میں آئے گا،اسی پر کفر کا حکم کیا جائے گا،خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو،پس کسی مقام سے نسبت رکھنے والے کو عام طورپر کیسے کافر کہا جاسکتا ہے؟

ہاں، اگر اس نسبت سے ایسے شخص کے ساتھ نسبت مراد ہے جو کافر ہو چکاہے،اور جس وجہ سے کافر ہواہے،وہ وجہ اس سے نسبت رکھنے والے میں موجود ہو تو پھر عام طورپراس ہرنسبت والے کو کافر کہا جائے گا۔

جیسے قادیانی کہ وہ باوجودے کہ صورۃً اہل قبلہ تھا،لیکن ادعائے نبوت اور اہانت انبیا کی وجہ سے کافر ہواتھا،اور اس کے ہر معتقد میں بھی یہ امر موجود ہے کہ وہ اس کو ان امور میں سچا جانتا ہے،یا کم ازکم یہ جانتے ہوئے کہ اس سے یہ امور صادر ہوئے، اس کو مسلمان اور اپنا پیشوا جانتا ہے۔

پس اگر دیوبندی میں بھی کوئی ایسا ہو جو کسی ایسے شخص جس کے متعلق اسے یقینا معلوم ہوکہ اس سے کلمہ کفر سرزد ہواہے، اور اس کا خاتمہ بھی اسی کفر پر ہواہے،اسے مسلمان جانتا اور اپنا پیشوا مانتا ہو تو اس کی تو ا س کے پیچھے تونمازجائز نہ ہوگی (ہادی مطلق اس کی اصطلاح فرمائے)،ورنہ حرج نہیں۔

البتہ چوں کہ ان لوگوں میں سے اکثر ایسے کے معتقد ہیں، جن سے کلمات کفریہ سرزد ہوئے،اور یہ معلوم نہیں کہ ان کو اس کا علم ہے یانہیں،اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ ان میں سے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے،اور پڑھ لی ہوتو لوٹائی جائے،تاکہ فرض وقت کی ادائیگی میں شبہہ نہ رہے۔فقط:واللہ تعالیٰ اعلم
محمد مظہر اللہ غفرلہ:مسجد جامع فتح پوری (دہلی)
(فتاویٰ مظہریہ:جلددوم ص 377-375-ادارہ مسعودیہ کراچی)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں ہے کہ جس کو ان کفریہ عقائدکاعلم ہو، اور یہ یقینی طور پر معلوم ہوکہ یہ لوگ بلا توبہ مرے ہیں،اس کے باوجود وہ ان کومومن مانتا ہو،تب اس کی اقتدا جائز نہیں۔اس سے واضح ہو گیا کہ موت کے سبب تکفیر سے سکوت مفتی موصوف کا مسلک نہیں۔بلکہ کسی خاص سبب سے سکوت ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ مفتی موصوف کا مسلک یہ ہے کہ موت کے بعد محض احتمال توبہ کے سبب نہ مومن کہا جائے,نہ کافر۔تو یہ بھی مفتی موصوف کا مسلک نہیں۔مفتی موصوف نے قادیانی کی موت کے بعد اس کو کافر کہا,پس اکابر دیوبند کی تکفیر سے سکوت کو اپنا مسلک بتانا کسی خاص سبب کی بنیاد پر ہے۔

مفتی موصوف نے قادیانی کے ذکر میں وجہ بیان فرمادی ہے کہ جو مرتد کو اس کے کفریات میں سچا جانے،یا اس کے کفریات پر مطلع ہوکر بھی اس کومسلمان اور اپنا پیشوا مانے تووہ بھی اسی کی طرح کافرہے۔

اسی طرح دیوبندی کا حال ہے،ایسا دیوبندی اور ایسا قادیانی مسلمان نہیں تو اس کی اقتدا میں نماز جائز نہیں۔

ایک قابل غور بات یہ ہے کہ مفتی موصوف نے قادیانی کے بارے میں کفرپر خاتمہ کا ذکر نہیں فرمایا،لیکن دیوبندی اکابر ین کے بارے میں کفر پر خاتمہ کی بات صراحۃً لکھی کہ جسے معلوم ہوکہ اکابردیوبند سے کفر صادر ہوا،پھر وہ اسی کفر پر مرگئے،توبہ نہ کی تو ایسا علم رکھنے والا شخص اگر اکابر دیوبند کو مومن وپیشوا سمجھے تو اس کی اقتدامیں نماز جائز نہیں۔

اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مفتی موصوف کو اکابر دیوبند کی توبہ کی کوئی خبر دی گئی تھی۔

قادیانی کوموت کے بعد کافر کہنا:

غلام احمد قادیانی کی موت1326ہجری مطابق26:مئی 1908کوہوئی۔فتاویٰ مظہریہ میں قادیانی کی موت کے بعد 09:ذی الحجہ 1379کے استفتا کے جواب میں قادیانی کوکافر لکھا گیا ہے،جب کہ قادیانی کی موت استفتا سے قریباً 54سال قبل ہو چکی تھی۔

اگرصاحب فتاویٰ مظہریہ موت کے بعد محض احتمال توبہ کے سبب تکفیر سے سکوت کا مسلک اختیار کرتے تو ہرگز قادیانی کو اس کی موت کے بعد کافر نہیں کہتے۔عبارت درج ذیل ہے۔

”جیسے قادیانی کہ وہ باوجودے کہ صورۃً اہل قبلہ تھا،لیکن ادعائے نبوت اور اہانت انبیا کی وجہ سے کافر ہواتھا،اور اس کے ہر معتقد میں بھی یہ امر موجود ہے کہ وہ اس کو ان امور میں سچا جانتا ہے،یا کم ازکم یہ جانتے ہوئے کہ اس سے یہ امور صادر ہوئے، اس کو مسلمان اور اپنا پیشوا جانتا ہے“۔(فتاویٰ مظہریہ:جلددوم ص 376-ادارہ مسعودیہ کراچی)

توضیح:منقولہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ مفتی موصوف کا یہ مسلک نہیں کہ محض احتمال توبہ کے سبب کسی کافرکی تکفیر سے سکوت کیا جائے،ورنہ موت کے بعد قادیانی کوکافر نہیں کہتے۔

اشخاص اربعہ پر عائد حکم کوماننا لازم:

فتاویٰ مظہریہ میں 14:اگست 1957کے فتویٰ میں ہے کہ اکابر دیوبند کی عبارتوں پر جوحکم شرعی ہے،اس کوماننا لازم ہے۔

سوال نمبر248:جو حضرات علمائے دیوبند کی ایسی تحریرات کی تاویلیں پیش کرتے ہیں جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی مترشح ہوتی ہے،اوریہ کہتے ہیں کہ علمائے بریلوی ان عبارات کے غلط معنی ومفہوم لیتے ہیں تو ایسے حضرات کے لیے کیا حکم ہے؟بینوا توجروا

مستفتی:محمد ایو ب الرحمن خطیب جامع مسجدسبزی منڈی خانیوال (مغربی پاکستان)
29:جولائی ۷۵۹۱؁ء

الجواب:جو عبارتیں مابہ النزاع ہیں،وہ خالص اردو کی عام فہم ہیں،پس ان کے معنی کے سمجھنے میں نہ کسی دیوبندی کا اعتبارہے،اور نہ بریلوی کے فہم کا۔

بلا کسی رورعایت کے عام ہندوستانی جوان عبارات کے معنی بتلائیں،اس ہی کا اعتبارہے،پھر اس پر شریعت مطہرہ کا جوحکم ہے،اس پر عمل لازم“-الخ

محمدمظہر اللہ غفرلہ:مسجد جامع فتح پوری (دہلی)

14:اگست ۷۵۹۱؁ء

(فتاویٰ مظہریہ:جلددوم ص375 -ادارہ مسعودیہ کراچی)

توضیح:مذکورہ بالا فتویٰ اشخاص اربعہ کی موت کے بہت بعدکا ہے۔تھانوی کی موت کے سترہ سال بعد کا فتویٰ ہے۔

اس میں یہ ہے کہ ان عبارتوں کا جوحکم شرعی ہے،وہ ماننا ہے۔

مفتی موصوف نے خودہی ان عبارتوں کا حکم رقم فرمایا ہے کہ یہ سب کفریہ اقوال ہیں اور جو شخص ایسے عقائد کا قائل ہو، وہ یقینا کافر ہے،پس اکابردیوبندکوکافرماننا ان کا بھی مسلک ہے،محض اپنے حق میں توبہ کی خبر کے سبب سکوت کا ذکر فرمایاہے۔

مذکورہ مباحث کانتیجہ وخلاصہ:

(1)صاحب فتاویٰ مظہریہ کو یہ تسلیم ہے کہ اکابر دیوبند کی قابل اعتراض عبارتیں کفریہ ہیں۔(سوال میں منقول فتویٰ)

(2)یہ بھی تسلیم ہے کہ ایسے اقوال کے قائلین کافر ہیں۔(سوال میں منقول فتویٰ)

(3)یہ بھی تسلیم ہے کہ ان عبارتوں کا جوحکم شرعی ہے۔وہ ماننا لازم ہے۔(فتویٰ 14:اگست 1957)

(4)یہ بھی تسلیم ہے کہ جو ان اقوال کفریہ پر مطلع ہو،اور اس کومعلوم ہوکہ اکابردیوبند نے توبہ نہیں کی ہے،اس کے باوجودوہ اکابردیوبند کومومن وپیشوا مانے تو اس کی اقتدا میں نماز جائز نہیں۔(فتویٰ9:ذی الحجہ:1379)

مذکورہ بالا حقائق واضح دلیل ہیں کہ مفتی موصوف نے دوسروں کوتکفیرسے سکوت کا حکم نہیں دیا،بلکہ اپنا مسلک سکوت بتایا۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ مفتی موصوف کو توبہ کی خبر موصول ہوئی ہے۔ توبہ کی خبر قوی نہ رہی ہوتو آپ نے اپنا مسلک سکوت بتایا۔

(5)موصوف نے اپنے بارے میں کہا کہ میرے نزدیک سکوت بہتر ہے۔سکوت کا سبب یہ بیان کیا کہ ان کی توبہ کا علم نہیں اور ان کی عاقبت کیسی ہوئی؟معلوم نہیں۔فتویٰ کو دوبارہ دیکھا جائے۔

الجواب:
اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں سے جو بعض اقوال صادر ہوئے ہیں، وہ یقینا کفر ہیں، لیکن اب جب کہ یہ لوگ انتقال کر گئے،اوریہ معلوم نہیں کہ توبہ کی یا نہ کی،اور ان کی عاقبت کیسی ہوئی ہے،اس لیے میرے نزدیک ان کے حق میں سکوت بہتر ہے۔ البتہ جو شخص ان عبارتوں کا قائل ہو، یقیناکافر ہے۔فقط محمدمظہراللہ غفرلہ:مسجد جامع فتح پوری (دہلی)

(فتاویٰ مظہریہ:جلد دوم:ص374-ادارہ مسعودیہ کراچی)

(1)مفتی موصوف کے مندرجہ ذیل دوجملوں کودیکھیں:
(الف) اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں سے جو بعض اقوال صادر ہوئے ہیں، وہ یقینا کفر ہیں۔
(ب)البتہ جو شخص ان عبارتوں کا قائل ہو، یقیناکافر ہے۔
نتیجہ:اشخاص مذکورہ یعنی اکابر دیوبند سے صادر ہونے والے اقوال یقینا کفر ہیں، اور جو ایسے کفر یات کا قائل ہوتو یقینا کافر ہے تو اشخاص مذکورہ یقینا کافرہیں۔مفتی موصوف کے مذکورہ دونوں جملوں کا یہ بدیہی نتیجہ ہے،لیکن چوں کہ ان لوگوں کے بارے میں کچھ یقین نہیں کہ توبہ کی یانہیں،اس لیے اپنا مسلک سکوت بتایا۔سب کویہ مسلک سکوت اختیار کرنے نہیں کہا،جیسا کہ دیگر فتاویٰ سے واضح ہے کہ ان عبارتوں کا حکم شرعی ماننے کا حکم فرمایا۔

موصوف نے رقم فرمایا کہ جس کو اکابر دیوبند کے کفریہ عقائد کا علم ہو اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ لوگ بلا توبہ مرے ہیں,اس کے باوجود ان لوگوں کو مومن و پیشوا مانے تو اس کی اقتدا میں نماز جائز نہیں۔اس سے واضح ہے کہ محض احتمال توبہ کے سبب سکوت نہیں,ورنہ محض احتمال توبہ قادیانی کے حق میں بھی ہے تو پھر مفتی موصوف نے اسے کافر کیسے کہا؟

سوال میں نقل کردہ فتوی میں محض احتمال توبہ کا ذکر نہیں،بلکہ توبہ کے یقینی وغیر یقینی ہونے کا ذکر ہے،ورنہ محض احتمال تو بہ تو قادیانی کے حق میں بھی موجود ہے،مفتی موصوف نے اسے کافر کہا ہے۔

(2)یہ سکوت احتمال توبہ کے سبب نہیں ہے،بلکہ منقولہ بالا فتویٰ اور فتاویٰ مظہریہ کے دیگر فتاویٰ دیکھ کر یہ مفہوم واضح ہے کہ صاحب فتاویٰ مظہریہ کو ان لوگوں کی توبہ کی کوئی خبر موصول ہوئی ہے،لیکن یقینی خبر نہیں ہے تو سکوت کو اپنا مسلک بتایا۔

(3)مذکورہ بالافتویٰ میں ہے کہ:یہ معلوم نہیں کہ توبہ کی یانہ کی۔معلوم کا لفظ کبھی متیقن کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور علم سے محض جاننا مراد نہیں ہوتا،بلکہ علم یقینی مرادہوتا ہے۔ منقولہ بالا فتویٰ میں توبہ کے عدم علم سے علم یقینی کا عدم مراد ہے۔

ممکن ہے کہ توبہ کی غیر یقینی خبر مفتی موصوف کو کہیں سے فراہم ہوئی ہو۔دیوبندسے دہلی قریب ہے،نیز دیابنہ تقیہ بازی میں بھی مشہور ہیں۔وہ اپنے اکابرین کی توبہ کی جھوٹی خبرپھیلاسکتے ہیں۔

(4)محض احتمال توبہ قادیانی کے حق میں بھی موجود ہے،،توقادیانی کوکافرکہنے سے بھی سکوت کرنا چاہئے،لیکن موصوف نے قادیانی کو کافر کہا،اس سے بالکل واضح ہے کہ محض احتمال توبہ کے سبب سکوت نہیں،بلکہ توبہ کی خبر کے سبب سکوت ہے۔

اسماعیل دہلوی کی توبہ کی ایک خبر تھی۔اکابر دیوبند کی توبہ کی خبر نہیں۔ممکن ہے کہ کسی نے ایسی افواہ اڑادی ہو۔

(5)1379کے فتویٰ میں موصوف نے لکھاکہ جس کو اکابر دیوبند کے کفریہ عقائد معلوم ہیں اور یہ معلوم ہے کہ اکابردیوبند بلا توبہ مرے ہیں،وہ اگراکابردیوبند کو کافر نہ مانے تو اس پرحکم شرعی وارد ہوگا۔یہ فتویٰ بھی اشخاص اربعہ کی موت کے بعد کا فتویٰ ہے۔

(6)1957کے فتویٰ میں لکھاکہ ان عبارتوں کاجو حکم شرعی ہے،وہ ماننا لازم ہے۔ یہ فتویٰ بھی اشخاص اربعہ کی موت کے بعد کا فتویٰ ہے۔

الحاصل مفتی موصوف نے احتمال توبہ کے سبب سکوت اختیار نہیں کیا،بلکہ توبہ کی خبر کے سبب سکوت کو اپنا مسلک بتا یا۔توبہ کی خبر یقینی نہیں ہوگی تو اکابر دیوبند کومومن نہیں مانے۔

توبہ کی کیسی خبر معتبر ہے؟

توبہ کا حکم شرعی مندرجہ ذیل ہے۔

الموت الاحمر کے حاشیہ میں حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ القوی نے تحریر فرمایا کہ توبہ کی خبر کے سبب بھی کسی کی تکفیر سے کف لسان کرنے کا حکم ہے۔اس کے مختلف درجات ہیں۔
"متکلم میں احتمال یہ کہ اس کلام سے اس کی توبہ ورجوع مسموع ہو۔یہ اگر بہ ثبوت قطعی ثابت ہو,جب تو ظاہر کہ اس کی تکفیر حرام,بلکہ بفتوائے کثیر فقہا خود کفر,اور ایسا ثبوت ہو کہ متردد کر دے,جب بھی قائل کے بارے میں کف لسان درکار۔اگرچہ قول کفر صریح ناقابل تاویل ہو۔

حدیث کا ارشاد ہے:کیف وقد قیل۔
اور اگر نری افواہ بے سروپا,یا کن فیکون کے بعد اس کے بعض ہوا خواہوں کا مکابرانہ ادعا ہو تو اس پر التفات نہ ہو گا۔فاحفظ 12:منہ "-
(حاشیہ:الموت الاحمر ص53:جامعۃ الرضا بریلی شریف)

توضیح:ممکن ہے کہ صاحب فتاویٰ مظہریہ کو توبہ کی کوئی غیریقینی خبر ملی ہو، جس سے ان کو تردد ہو گیا ہو اور اسی خبر توبہ کے سبب انہوں نے تکفیر سے سکوت کیا ہو تو وہ معذور ہیں۔واللہ تعالی اعلم

لیکن چوں کہ دیوبندی لوگ آج تک ان عبارتوں پر مناظرے کرتے ہیں۔ ان کفریہ عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں۔اگراشخاص اربعہ سے توبہ کی خبر منقول ہوتی تو دیابنہ واضح لفظوں میں اعلان کرتے کہ ہمارے اکابرین نے کفریہ عبارتوں سے توبہ کرلی ہے۔

ایسی صورت میں صاحب فتاویٰ مظہریہ کے قول کے مطابق بھی اشخاص اربعہ کوکافر ماننا ہے۔

خود ان کو اگر توبہ کی کوئی خبر تھی تووہ خبر کاذب تھی۔اس کا اعتبارنہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے