یکم آپ اعتراض کے معنی کو اچھے سے جاکر دیکھیں کہ لغت میں اعتراض کہتے کسے ہیں، اور یہ اردو میں کہاں سے ماخوذ ہے۔
دوم آپ کو حق اعتراض ہے تو ثابت کریں اور نہیں تو اعتراض کیسا ؟
سوم میں کہتا ہوں کہ آپ کو بالکل اعتراض کا حق حاصل نہیں کہ حق اعتراض اس کو ہے جس کی بابت قول ہے۔
چہارم اعتراض کے لئے ضروری ہے کہ حق و صواب کے انکشاف کے بعد سر تسلیم خم کرنا۔ جو کہ وہاں سرے ہی سے پایا ہی نہیں گیا طرفہ اور رقصاں تماشا یہ کہ اصلاح قبول کرنے کی بجائے وہ ایک عالم دین مفتی ہی سے تنک کر گفتگو پر اتر آئے۔
پنجم ایک عالم دین سے کلام کرتے وقت از حد پاسِ ادب ضروری ہے۔ کیا یہ کہنا کہ جب آپ کو معلوم تھا شبیر آرہا ہے تو آپ کو آنا ہی نہیں جاہئے تھا۔ یہی ادب کا تقاضہ؟ وائے رے ادیبوں کی ادب۔
ششم رہی بات اصلاح کے طریقے کی تو اس پر بے شمار مشاہدات شاہد عدل ہیں۔
ہفتم لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ اصلاح کانوں میں نوزائیدہ بچے کے کانوں میں پھونکنے والی آذان کی سی ہو۔ (ایک نیا داؤ مارکیٹ میں ٹرینڈ پر ہے)
ہشتم اگر ان کی تجویز کے مطابق اصلاح کی جائے جب تو دوحال سے خالی نمبر (۱)۔ یا تو قبول ہی نہیں کرنی ہے اصلاح کو۔
نمبر (۲)۔ اگر قبول بھی کر لیا تو بس اوپر اوپر سے پھر وہی روش وہی پرانا کاروبار، وہی شیوہ وہی عادت۔
پھر تو اصلاح کا مطلب ہی کیا بنتا ہے۔ صاحب عقل اس پہلو کو بھی تو دیکھیں۔
نہم اب آخری راستہ یہی نکلتا یے کہ جب فالٹ کریں، جوں کریں، جیسے کریں، فورا بروقت، توں کا توں، جیسے کے تیسے ہی ان کی سرزنش کی جائے۔ جبھی امکان ہے روک تھام کی ورنہ "ایک کان سے سننا دوسرے کان سے نکال دینا” ان کا پرانا شیوہ رہا ہے۔
دہم اپنی عزت کی تو پڑی ہے جس کی خاطر لڑ پڑے، بھڑ گئے، نعت رسول مقبول کی کیا کوئی حیثیت بھی ہے ان کی نظر میں؟
اگر ہے تو کیا یہی ہے کہ کھینچ تان کے گویوں اور موسیقی کاروں کے مثل پڑھیں، اُدھم مچائیں، ریپ (Rap) کریں؟
اگر نعت رسول مقبول کا پاس نہیں کرتے تو پھر ان کا خدا ہی مالک ہے، ایک بات ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ منبر رسول کا بھی تو کچھ حق ہے کہ نہیں؟
اگر حق ہے تو کیا یہی حق ہے کہ ناچا جائے منبر پر بیٹھ کر اور غلو کاری کری جائے؟
اگر حق نہیں ہے ان کی نظر میں تو پھر وہی کہوں گا جو سابق میں کہا کہ خدا ہی ان ناترسوں کا مالک۔
یازدہم جو بھی یہ کہہ رہا ہے کہ اصلاح اچھی بات ہے مگر طریقہ درست نہیں۔ اس پر کلام اوپر کرچکا کہ جو کچھ بھی مفتی صاحب نے کیا درست ہے۔ مگر پھر بھی وضاحت میں یہ کہوں گا کہ اس طرح کے معترضین کی دو صورتیں بنتی ہیں میری فکر میں پیشِ نظر رہے۔
نمبر (۱)۔ یا تو فین ہے ان گویوں کا معترض یا پھر اس کو اس علم سے کوئی آشنائی نہیں کہ رقاص کی محبت میں ایک مفتی پر ہفوات بکے جارہا ہے۔
نمبر (۲)۔ یا ان گویوں ہی کے مثل وہ بھی اسی غول کا فرد ہے جس کو کسب معاش کی فکر نے یہ کہنے مجبور کیا، تو بول پڑے اور منھ کھول پڑے۔ ہائے رے عقل کے مارے کچھ تو دانائی کا مظاہرہ کرتے۔
دوازدہم میں نے کسی عالم دین یہ بات سنی تھی کہ ہمارے دور میں کوئی مدرسے سے بھاگ گیا تو وہ یا تو مزدوری پر لگ گیا، یا پھر دیگر امور دنیوی کا کاربند ہوگیا۔ مگر آج کا معاملہ بالکل بر عکس ہے جس کو نعت خواں ارے معذرت کے ساتھ شاعر صاحب، پیشہ ور مقرر، یا نقیب بننا ہوتا ہے، وہی مدرسہ چھوڑ دیتا ہے۔ قوم کا رخ کدھر پھیرا جارہا ہے۔
"ع شرم نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں”
سیزدہم آخری سوال کیا علم سے کورے لوگوں کو اسٹیج پر جگہ دینا چاہئے؟ جواب بالکل نفی میں ہوگا بلا مزاہمت۔ بے ادب، بے ڈھنگے، بھونڈے، منھ زور، پھکڑ باز، اور پاس ادب سے نفور لوگوں کو بالکل اسٹیج پر جگہ نہیں ملنی چاہئے۔
نتیجہ یہی نکلتا ہے جو ہوا اچھا ہوا، بر وقت ہوا، بجا ہوا، بلا کراہت درست ہے۔ اب اتنی وضاحت کے باوجود کوئی اعتراض کرے تو اس کا علاج نہیں ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی ہٹ دھرمی، خدا نا ترسی پر اتر آئے تو اس کی خاطر "وما علینا الا البلاغ یا اخی” کا قول بس۔
"وما توفیقی الا باللہ۔”
فقط والسلام
ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی