قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے، ترجمہ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ دُعا عظیم عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ چنانچہ ”دُعا“ کے فضائل کے متعلّق چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ کریں: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دُعا سے بزرگ تَر نہیں۔ دُعا مصیبت و بلا کو اُترنے نہیں دیتی۔ دُعا مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔ دعا رحمت کی چابی ہے۔ دعا قضا (موت) کو ٹال دیتی ہے۔ دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔ جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔
درج بالا تمام احادیث و اقوال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں ہر وقت طالبِ دعا رہنا چاہیے۔ سورہ الم نشرح کی آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "تو جب تم فارغ ہو تو خوب کوشش کرو۔” اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ نماز سے فارغ ہوجائیں تو آخرت کے لئے دعا کرنے میں محنت کریں کیونکہ نماز کے بعد دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکور دعا کے بارے میں بعض مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ اس سے کونسی دعا مراد ہے، بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا مراد ہے جو نماز کے آخر میں نماز کے اندر مانگی جاتی ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا مراد ہے جو سلام پھیرنے کے بعد مانگی جاتی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، جب آپ مخلوق کو دین کی دعوت دینے سے فارغ ہوجائیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے میں مشغول ہوجائیں۔ (مدارک، الشرح، تحت الآیۃ: ۷، ص ۱۳۵۹، ملخصاً)
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔
(1)… نماز کے بعد خاص طور پر اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نماز کے بعد کی گئی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ (2)… بندے کو فارغ نہیں رہنا چاہئے اور نہ ہی کسی ایسے کام میں مشغول ہونا چاہئے جس کا کوئی دینی یا دُنْیَوی فائدہ نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو اسے فائدہ نہ دے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴) (3)… جو خطیب، واعظ اور مُبَلِّغ حضرات رات گئے تک مَحافل اور اجتماعات میں عوامُ النّاس کے سامنے خطاب، تقریر اور بیان کرتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن افسوس کہ فی زمانہ ایسے حضرات کی ایک تعداد ایسی ہے کہ جو آدھی رات بلکہ اس سے بعد تک بھی محافل اور اجتماعات میں اپنے خطاب، تقریر اور بیان کرنے کے معاملے میں تو انتہائی چست نظر آتے ہیں اور ان کے خطاب میں جوش اور ولولہ نمایاں نظر آتا ہے، جماعت چھوڑنے، نماز قضا کرنے یا بالکل ہی نہ پڑھنے کی سزاؤں پر مشتمل آیات و اَحادیث رو رو کر سنارہے ہوتے ہیں لیکن اس سے فارغ ہونے کے بعد نماز کے معاملے میں ان کی اپنی سستی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ فجر کی نماز جماعت کے بغیر یا قضا کرکے پڑھتے ہیں اور دیگر نمازوں کی ادائیگی میں بھی انتہائی سستی سے کام لیتے ہیں۔ ایسے حضرات کو چاہئے کہ ان آیات اور اَحادیث کو پڑھ کر اپنی عملی حالت اور اس کی جزاء کے بارے میں خود ہی غور کر لیں۔
پنج وقتہ فرائض کے بعد ہاتھ اٹھا کر جو اجتماعی دعا ہوتی ہے چاہے وہ دعائے اول ہو یا دعائے ثانی اسے اہل سنت کے عوام و خواص علماء و مشائخ و مفتیان عظام جائز و مستحسن مانتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ عز وجل نے ارشاد فرمایا: ’’ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ‘‘ جلالین میں اس کی تفسیر یہ ہے۔ فإذا فرغت من الصلاۃ اتعب في الدعا۔ کہ جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو دعاؤں میں خوب کوشش کرو۔ اور ظاہر ہے کہ نماز سے مکمل فراغت سنن و نوافل کے بعد ہوتی ہے۔ یہ فاتحہ تمام انبیاء کرام، صحابہ عظام، اولیاء امت اور علماء ملت اور تمام مسلمانوں کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ کہیں رواج نہ ہونا کسی چیز کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں۔ دعاے ثانی فرض یا واجب نہیں مگر مستحسن و محمود ضرور ہے اگر دعاے ثانی نہ مانگے تو کوئی گناہ نہیں۔ البتہ اسے ناجائز و حرام سمجھ کر چھوڑنا ضرور گمراہی و بددینی ہے جیسا کہ بعض افراد کرتے ہیں۔ پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کا یہ عمل ہے کہ نوافل سے فارغ ہو کر بھی انفرادی طور پر ضرور دعا مانگتے ہیں۔ نماز کے بعد دعائے ثانی کو جائز قرار دینے والے تمام علما، مشائخ، مفتیان کرام، محدثین سبھی اس پر عمل کرتے ہیں اور اسے مستحسن جانتے ہیں۔
ہمارے یہاں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ نمازوں سے فارغ ہوتے ہیں تو مسجد سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے کسی مجبوری کے سودے پر رہے ہوں۔ جبکہ نمازوں کو ذوق و شوق سے ادا کرنا چاہیے، ہماری حرکات و سکنات سے یہ ظاہر نہیں ہونا کہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہمارے لئے کچھ اور ہے جس کی طرف عجلت کی جارہی ہے۔ نمازوں سے فارغ ہوکر یا یوں بھی جب موقع ملے چاہے نوافل کی ادائیگی ہوئی ہو یا کسی بھی سنت، واجب، فرض کی ادائیگی سے سرفراز ہوئے ہوں، کوشش کریں اس کے بعد اپنے ربّ کی بارگاہ میں اپنے ہاتھوں کو اٹھائیں کہ اُسے بندے کا مانگنا بہت پسند ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ فارغ ہوکر آخرت کے لئے دعا میں محنت کریں، کثرت کریں، یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ دنیا کے ساتھ آخرت کی خیر اور بھلائی طلب کریں۔ غور کیجئے محنت اور کثرت کرنا کسے کہتے ہیں؟ نمازوں کے بعد بغیر دعا مانگے نکل جانے کو!! یا جلدی جلدی دعا کرکے بھاگ کھڑے ہونے کو!!! یا ٹھہر ٹھہر کر اپنے رب کی حمدوثنا کر کرکے دیر تک دعا میں مشغول رہنے کو محنت و کثرت کہتے ہیں۔
حدیث شریف ہے، فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: جب تم میں کوئی شخص دعا مانگے تو کثرت کرے کہ اپنے رب سے ہی سوال کررہا ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں اپنی ایک کتاب میں امام اہلسنت، امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں، یہ حدیث سوال و مسئول دونوں میں تکثیر کی طرف ارشاد فرماتی ہے، مسئول میں یوں کہ بہت کچھ مانگے، بڑی چیز مانگے کہ آخر ربّ قدیر سے ہی سوال کرتا ہے اور سوال میں یوں کہ بار بار مانگے، کثرت سے مانگے کہ آخر کریم سے مانگ رہا ہے، وہ تکثیرِ سوال سے خوش ہوتا ہے بخلاف ابن آدم کے کہ بار بار مانگنے سے جھنجھلا جاتا ہے۔ اجتماعی دعا سے متعلق یوں آتا ہے کہ جب کچھ مسلمان جمع ہوں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں، ان میں سے ایک دعا کرے اور باقی آمین کہیں تو ایسی دعا جلد اجابت و قبولیت کو پہنچتی ہے۔ لھذا مسلمانوں کو نمازوں سے فارغ ہوکر دعا میں محنت و کثرت کرنی چاہیے، اللہ تعالٰی ہمیں عمل کی توفیق بخشے آمین۔ بعض احباب کثرت دعا کرنے والے اپنے مسلمان بھائی سے از راہِ مذاق کہتے ہیں کہ کیا سب ابھی ہی مانگ لو گے یا بعد کے لئے بھی کچھ چھوڑو گے یا لمبی دعاؤں کے وقت یوں کہتے ہیں کہ کیا اپنے مرحوم کو جنت میں داخل کرکے ہی دعا ختم کرو گے تو اُن کو یوں کہنا شعار اسلام کا مذاق بنانا ہے جو شرعاً ناجائز و ناپسندیدہ بات ہے کہ اپنے رب سے بار بار مانگنے پر، گڑ گڑا کر مانگنے پر یا دیر تک مانگتے رہنے پر اسے عار دلانا ہے جبکہ رب عزوجل کی ذات ہی اصل مستحق ہے اس بات کی کہ بندہ اُس سے مانگے اور خوب مانگے اور کثرت و محنت سے مانگے۔
از: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں
9130142313