محمدآ باد گہنہ/مئو: 27 فروری (پریس ریلز) صحافت بھی بہت اچھا کام ہے بشرطیکہ بیباک ہو تعصبات و تنگ نظری سے پاک ہو جس طرح قلم و روشنائی میں بڑا گہرا تعلق ہے اسی طرح تقریر و تحریر میں، خطابت و صحافت میں بھی بڑا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو پاک اور بیباک رکھنا ہر مضمون نگار اور قلمکار کی ذمہ داری ہے اور تاکہ ایسا ماحول ہمیشہ قائم رہے کہ زبان حق بولے اور قلم حق لکھے زبان کو صحیح طور پر استعمال کرنا صاحب زبان کی ذمہ داری تو قلم صحیح طور پر چلانا صاحب قلم کی ذمہ داری ہے تاکہ صحافت کا معیار بلند رہے
مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشہور مضمون نگار اور یوپی بنکر یونین کے سابق سکریٹری جاوید اختر بھارتی نے کہا کہ پہلے تو بہت کم لوگ تھے مضمون نگاری کے میدان میں اب تو بہت زیادہ لوگ ہیں جن کے مضامیں اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے ہیں اور آج اس میدان میں سیاسی ، سماجی شخصیات کے علاوہ علمائے کرام کی بھی بڑی تعداد ہے جو کہ انتہائی خوشی کی بات ہے انہوں نے کہا کہ وہی مضمون نگاری کامیاب ہے جو ہر خاص و عام پڑھ کر سمجھ سکے اس سے قارئین کے اندر مطالعہ کرنے کی خواہش میں اضافہ ہوگا اور قارئین کے اندر مضامین کو پڑھنے کی خواہش بڑھے گی تو اس سے اخباروں کا سرکلر بھی بڑھے گا اور اردو زبان کو بھی فروغ ملے گا
جاوید بھارتی نے مضمون نگاری کے موضوع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دینی وسیاسی مضامین کے ساتھ ہی عوامی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے اس پر بھی قلم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مسائل پر حکومت کی جانب سے کاروائی ہو سکے اور عوامی مسائل کا تصفیہ ہو سکے مرکزی حکومت نے بجٹ پیش کیا تو اس پر مختلف انداز میں مضامین لکھے گئے لیکن میں نے اپنے مضمون میں حکومت کے ذریعے بنکروں کو نظر انداز کرنے کا ذکر کیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ اترپردیش کی حکومت نے بجٹ پیش کرتے وقت بنکروں کا ذکر کیا گویا میری محنت وصول ہو گئی جس کے لئے میں سبھی اردو اخبارات کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں اور کچھ مضمون نگار ایسے بھی ہیں جو دوسرے مضمون نگاروں سے بغض رکھتے ہیں اور ان کی سوچ ہے کہ ہماری برابری میں کوئی نہ آسکے تو ایسی مضمون نگاری سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس موقع پر ان کے ساتھ ضیاء الاسلام انصاری بھی موجود تھے.