تاریخ کے دریچوں سے

کبھی چراغ ، کبھی تیرگی سے ہار گئےجو بے شعور تھے وہ ہر کسی سے ہار گئے

تحریر: محمد دلشاد قاسمی

مسلمانوں کی سلطنتوں کے زوال نے جہاں مسلمانوں کے درمیان ہمت و حوصلہ کو پست کیا وہی ہندوؤں کے اقتدار کے عزائم میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا شیرازہ بکھر گیا ۔
پھر ہندوتوواد نے لوگوں کو انفرادی طور پر اور بحیثیت ایک معاشرے کے اپنے دھرم کی پیروی کرنے کی تلقین کی۔ اس پروپیگنڈے کے لیے دیومالائی تاریخی کہانیاں گھڑی گئی ۔
ان کی دیومالائی تاریخی کہانیوں کا آغاز مسلمانوں کے دور حکومت سے پہلے ہوتا ہے یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مندر جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے یہ نشوونما اور ترقی کا دور تھا جس میں ثقافت اور ذہانت اپنے عروج پر تھی پھر مسلمانوں کا دور آیا اور یہ سنہری دن رخصت ہوگئے ہندوستان تہذیب کے مقام سے گر کر بربریت کے دور میں چلا گیا ہے ۔(بھٹا خارجہ 132 )
یہ بات یاد رکھئے کہ ہندتوا نظریاتی طور پر کوئی چیلنج نہیں ہے لیکن عملی حیثیت میں ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ برھمن ازم اور ہندتوا دو چیزوں کی وجہ سے چلتا ہے۔ ایک ہے اندھ وشواس ، اور دوسرے ڈنڈے سے ، دلت تو اندھ وشواس کو مان لئے ہیں اور مسلمان ایمان کی وجہ سے اندھ وشواس سے بچ گئے ہیں لیکن وہ برہمن کے ڈنڈے سے نہیں بچ سکتے اس لیے ہمیں اس سے بچنے کے لئے تیاری کرنی پڑے گی ۔ میثاق مدینہ کے وقت مسلمان 15 پرسنٹ تھےلیکن حکمراں کی حیثیت سے تھے ، اور آج ہم پندرہ پرسنٹ سے بھی زیادہ ہیں پھر آج ہم کیوں پریشان ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ہمارے اندر سیاسی شعور نہیں ہے ۔
ہندوتوا کے چیلنج کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے پرانی حکمت عملی جو اپنائی تھی وہ اب کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے بلاشبہ اب ہمیں کوئی نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جنگیں کبھی بھی ایک ہی رخ پر نہیں لڑی جاتی ہم نے جو اب تک حکمت عملی اپنائی تھی وہ یہ تھی کہ اس ملک میں ہندو اکثریت میں ہے اور ہم اقلیت میں ہیں لہذا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ سیکولر مزاج ہندوؤں کو سپورٹ کریں ان کو تقویت پہنچائیں کیونکہ ہندو دو قسم کے ہیں۔ ایک سیکولر۔ایک فرقہ پرست ۔
اس ذیل میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ، کیا ہندوستان میں کبھی سیکولریزم قائم تھا ؟ اور کیا ہندوستان کے کچھ لیڈر سیکولر نیشنلسٹ تھے ؟ اور جو نیشنلسٹ تھے ان کے نزدیک نیشنلسٹ سے کیا مراد تھی ؟ یا پھر یہ سب تصنع اور لفاظی تھی تاکہ اصل امنگوں کی پردہ داری کی جا سکے ؟ اور وہ کونسی تاریخی طاقتیں تھیں جنہوں نے لوگوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس طرح کا مبہم رویہ اپنائیں ؟
یہ سوالات کافی اہم ہے کیونکہ ہندوستان آج جس پوزیشن میں پہنچا ہے اس کو اس پوزیشن میں پہنچانے والے اسباب کی نشاندہی انہی سوالات کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے۔
ان سوالات کے جواب میں آپ کے حوالے کرتا ہوں البتہ موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے اس بات کی کہ اب ہم سیکولر لیڈروں پر بھروسا کرنا چھوڑ دیں اور خود کچھ کرنے کی ٹھانے ۔

(1) ہمارے ملک کے دستور میں ۔
Liberty
equality
fraternity
justice
democracy
یہ سب چیزیں ہمارے ملک کے قانون میں موجود ہیں لیکن زمینی سطح پر یہ چیز نافذ نہیں ہو رہیں ہے اس لیے ہمارا ہمارا مقصد ہے دستور کے مقاصد کو ملک میں نافذ کرنا۔
دوسری چیز : ہندوستان کی آبادی کو ہم چار کیٹیگری میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایس سی ۔ ایس ٹی ۔ او بی سی ۔ اور مسلم ۔ او بی سی 52 پرسنٹ ۔ ایس سی ، ایس ٹی 22 پرسنٹ ، مسلم 18 پرسنٹ۔ ٹوٹل 92 پرسنٹ۔ یاد رکھیئے اس اس ملک کی ایک ہی اقلیت ہے اور وہ ہے” برہمنزم” لیکن انہوں نے ہندو کا لفظ استعمال کر کے ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے تو سب سے پہلے ہم ہندو لفظ بولنا چھوڑ دے کیونکہ جب ہم ہندو لفظ بولتے ہیں تو پورا ایس سی ، ایس ٹی ، اور او بی سی، سب ہندو لفظ کے اندر آ جاتا ہے اس لیے ہم برہمن کو( ہندتوا ) کو قانونی نام دیں ۔جیسے ,general caste, OBC, upper caste
تیسری چیز : آج بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسٹیٹ کا حصہ بنے جیسے آر ایس ایس اسٹیٹ کا حصہ بن چکی ہے کیونکہ عام آدمی اگر جرم کرتا ہے تو اسٹیٹ سوال کرے گی لیکن اگر اسٹیٹ کچھ کرے تو کیا عوام پوچھے گی ؟ نہیں پوچھے گی ۔

اس بے یقین دور کا قائد وہی ہے
رکھے جو خبر اس زمیں پہ آسماں کی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے