تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
سوال:کیا کفر کلامی وکفر فقہی میں تساوی کی نسبت ہے؟
جواب: نہیں۔کفر کلامی و کفر فقہی میں تباین کی نسبت ہے۔
جس طرح کلمہ کی تین قسمیں ہیں:اسم،فعل،حرف۔ان تینوں قسموں کے درمیان تباین کی نسبت ہے۔
اسی طرح ہر مقسم کی قسموں کے درمیان تباین کی نسبت ہوتی ہے۔تمام قسیم ایک دوسرے کے مباین ہوتے ہیں۔
کفر کی دو قسمیں ہیں۔کفر فقہی اور کفر کلامی۔
کفر کلامی یہ ہے کہ ضروری دینی کا انکار ایسا ہو کہ عدم انکار کا احتمال بعید بھی نہ ہو،یعنی انکار قطعی بالمعنی الاخص ہو۔کفر فقہی یہ ہے کہ ضروری دینی کا انکار ایسا ہو کہ اس میں عدم انکار کا احتمال ہو۔
کفر فقہی کی دو قسمیں ہیں۔
کفرفقہی کی قسم اول:
کفر فقہی قطعی:یہ ضروری دینی کا ایسا انکار ہے کہ وہاں عدم انکار کا احتمال بعید ہو،جیسے کسی ضروری دینی کا مفسر طور پر انکار نہ ہو یعنی انکار صریح متعین نہ ہو،بلکہ انکار نص کے طریقے پر ہو،یعنی انکار صریح متبین ہو۔یہ کفرفقہی، قطعی بالمعنی الاعم ہے۔یہ فقہا کے یہاں کفر قطعی، اور کفر التزامی ہے۔
متکلمین اس کو بھی کفر لزومی کے حکم میں شمار کرتے ہیں،کیوں کہ یہاں عدم انکار کا احتمال بعید ہے،لیکن احتمال بعید پر کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے۔اس کا نام ہی احتمال بلا دلیل ہے۔عدم دلیل کے سبب متکلمین اس کے مرتکب کو گمراہ یعنی سخت گمراہ قرار دیتے ہیں۔اس درجہ والے کو فقہا کافر فقہی کہتے ہیں۔یہ لفظی فرق ہے،اور تعبیر واصطلاح کا اختلاف ہے۔
کفر فقہی کی قسم دوم:
کفر فقہی لزومی ظنی:ضروری دینی کا ایسا انکار کہ جس میں عدم انکار کا احتمال قریب ہو۔یہ کفر ظنی ہے۔فقہا اس صورت میں عام طور پر قائل کو کافر نہیں کہتے، لیکن کلام کو کفریہ قرار دیتے ہیں،اور توبہ وتجدیدایمان وتجدیدنکاح کا بھی حکم دیتے ہیں۔
اگر کفر فقہی اور کفر کلامی میں تساوی کی نسبت ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کفر کلامی میں عدم انکار کا احتمال قریب اور احتمال بعید موجود نہ ہو، اور عدم انکار کا احتمال قریب واحتمال بعید موجود بھی ہو،کیوں کہ کفر فقہی کی ایک قسم میں احتمال قریب اور ایک قسم میں احتمال بعید ہوتا ہے۔
کفر فقہی وکفر کلامی کے اجتماع سے لازم آئے گا کہ ایک ہی کلام میں عدم انکار کا احتمال قریب و بعید نہ ہو۔اور پھر اسی کلام میں عدم انکار کا احتمال قریب یا احتمال بعید ہو۔یہ محال ہے۔کیوں کہ یہ اجتماع متضادین کی شکل ہے۔
ہاں،یہ ممکن ہے کہ جس پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوا ہو،اس کا دو کفریہ کلام ہو۔ایک میں کفر فقہی پایا جاتا ہو،اور دوسرے کلام میں کفر کلامی پایا جاتا ہو تو وہ اپنے ایک کلام کے اعتبار سے کافر فقہی ہو گا، اور دوسرے کلام کے اعتبار سے کافر کلامی ہو گا۔
دراصل مرتد یعنی کافر کلامی جماعتوں کے عقائد میں متعدد امور کفریات کلامیہ بھی ہیں اور بہت سے امور کفریات فقہیہ بھی ہیں،اسی لیے وہاں بعض اعتبار سے کفر فقہی ثابت ہوتا ہے،اور بعض اعتبار سے کفر کلامی ثابت ہوتا ہے۔
سوال:اگر یہ کہا جائے کہ کفر فقہی عام ہے اور کفر کلامی خاص ہے تویہ صحیح ہے؟
جواب: کفر فقہی میں احتمال ہوتا ہے یعنی اس کے مفہوم میں جانب مخالف یعنی ضروری دینی کے عدم انکار کا احتمال معتبر ہے۔خواہ احتمال قریب ہو،یا احتمال بعید۔
کفر کلامی کے مفہوم میں جانب مخالف یعنی ضروری دینی کے عدم انکار کے احتمال کا عدم معتبر ہے،لہٰذا احتمال وعدم احتمال کا اجتماع ہو نہیں سکتا تو یہاں مادۂ اجتماع پایا نہیں جائے گا،پس عموم خصوص مطلق کی نسبت نہیں پائی جائے گی۔
حیوان عام ہے اور انسان خاص ہے تو ان دونوں میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے،یعنی ہر انسان حیوان ہے۔یہ مادۂ اجتماع ہے،لیکن ہر حیوان انسان نہیں۔یہ مادۂ افتراق ہے۔
حیوان کے مفہوم میں اگر عدم ناطقیت معتبر ہو جائے تو کوئی انسان ہرگز حیوان نہیں ہو گا،کیوں کہ حیوان کے مفہوم میں عدم ناطقیت معتبر ہے،اور ہر انسان ناطق ہے تو مادۂ اجتماع متحقق نہیں ہو گا،پھر عموم وخصوص مطلق کی نسبت کہاں سے ہوگی؟
اسی طرح جب کفر کلامی کے مفہوم میں عدم احتمال معتبر ہے،اور کفر فقہی کے مفہوم میں احتمال معتبر ہے تو دونوں کے درمیان مادۂ اجتماع متحقق نہیں ہو گا،پس دونوں کے درمیان صرف مادۂ افتراق متحقق ہو گا،اور جن دوامورمیں صرف مادۂ افتراق متحقق ہو،وہ دونوں متباین ہوتے ہیں،نہ کہ عام و خاص مطلق۔
کفر کلامی اور کفر مطلق یعنی جو کفر مقسم ہے۔ان دونوں کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔اسی طرح کفر فقہی اور کفر مطلق کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔
ایک مقسم کی قسموں کے درمیان تباین کی نسبت ہوتی ہے۔
سوال:بعض علما نے فرمایا کہ کفر کلامی و کفر فقہی کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔
فتاویٰ شارح بخاری میں ہے:”کفر فقہی اور کفر کلامی میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔ہر کفر کلامی،کفر فقہی ہے،مگر ہر کفر فقہی،کفر کلامی ہونا ضروری نہیں“۔
(فتاویٰ شارح بخاری:جلددوم:ص 228-دائرۃ البرکات گھوسی)
جواب:دونوں کفر کے حکم کے مد نظر ایسا فرمایاگیا ہے۔
کفر فقہی کا حکم ہے:توبہ,تجدید ایمان و تجدید نکاح۔
کفر کلامی کا حکم ہے:توبہ,تجدید ایمان,تجدید نکاح۔
ان احکام کے ساتھ کفر کلامی کا یہ بھی حکم ہے۔اسلام سے خروج کامل۔اعمال سابقہ کا بطلان۔نکاح کا بالکل فسخ ہو جانا۔
جو احکام کفر فقہی کے ہیں،وہ تمام احکام کفر کلامی میں ثابت ہیں اور کفر کلامی کے مزید اضافی احکام ہیں۔
جیسے حیوان جسم نامی حساس متحرک بالارادہ کا نام ہے اور انسان جسم نامی حساس متحرک بالارادہ ناطق کا نام ہے۔
انسان میں ایک قید کا اضافہ ہے تو یہ خاص ہے، اور حیوان میں وہ قید نہیں تو وہ عام ہے۔
اسی طرز پر کفر کلامی اور کفر فقہی کے احکام کے مد نظر کفر فقہی کو عام اور کفر کلامی کو خاص کہا گیا۔کفر فقہی کے تمام احکام کفر کلامی کے لیے ثابت ہیں۔مزید اضافی احکام کفر کلامی کے لیے ثابت ہیں،ورنہ ماہیت کے اعتبار سے کفر کلامی وکفر فقہی میں تقابل تضاد ہے۔
کفر کلامی کفر متعین فی الکفر ہے۔کفر فقہی کفر محتمل فی الکفر ہے۔
سوال:اگر ایک ہی آدمی بعض اعتبارسے کافر فقہی ہو،اور بعض اعتبارسے کافر کلامی ہوتواس کو کافر فقہی مانا جائے گا،یا کافر کلامی؟کس اعتبارسے اس کے ساتھ سلوک کیا جائے؟
جواب:قطعیات میں دلیل قوی کے اعتبارسے فیصلہ ہوتا ہے اوراسی اعتبارسے حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ کفر کلامی،کفرقوی ہے تو ملزم کو کافر کلامی مانا جائے گا، اور کافرکلامی کے جو شرعی احکام ہیں،وہی احکا م نافذہوں گے،مثلاً ا س کی اقتدا میں نماز پڑھنے والا کافر مانا جائے گا۔اس سے نکاح باطل ہوگا۔اس سے نکاح کے بعد قربت زنائے خالص۔اس کی بیوی نکاح سے بالکل نکل جائے گی۔اس کے اعمال سابقہ برباد ہوگئے،وغیرہ۔
چوں کہ کفر فقہی کا بھی وہ مجرم ہے تو اس جرم کا مجرم بھی اسے مانا جائے گا،جیسے کوئی قاتل بھی ہو، اور چور بھی،جھوٹا بھی،فریب باز بھی،تو ان تمام جرائم کا مجرم اس کو سمجھا جائے گا۔
اسی طرح کافر کلامی،کفرفقہی اور فسق وفجور کا بھی مرتکب ہوتو کفر کلامی کے سبب وہ دین اسلام سے خارج ہوگا،اوراس کو دیگر جرائم کا مجرم بھی مانا جائے گا۔