ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910
عائشہ کی خودکشی چرچا میں ہے ۔”عورت کو اپنے ہی گھر میں درپیش جسمانی، جذباتی، جنسی،زبانی اور معاشی زیادتیاں گھریلو تشدد کی تعریف میں شامل ہے”۔ شوہر اپنی برتری کو ظاہر کرنے کے لیے معمولی بات کو بنیاد بنا کر عورت کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔حالیہ عائشہ کی خودکشی کے واقعے میں تشدد کی حقیقت سامنے آنے تک کچھ اور مظوم اس آسان راستہ کو پھر آزمائیں گے کیونکہ ظلم سے بچنے کا اس سے آسان طریقہ انھیں ملتا نہیں ۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈرہمدم
گری تھی جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
اپنی جان کو ہلاک کرنا، خودکشی کرنا بزدلی ہیے- حرام موت ہیے۔اس چیلینج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں نے خوب ترقی کی ہیے۔زندگی کی تلخ سچائیوں کا سامنا کرنے والی بے شمار با ہمت خواتین نے مردانہ وار طریقے چُنے، تکالیف کا جم کر مقابلہ کیا اور سرخ رو ہوئیں۔ ان کےشعور، ذہنی پختگی، عزم وحوصلہ، تعلیم نے زندگی کو جینے کا ہنر عطا کیا ہے۔
کس حوصلے سے ہم نے بسر کی ہے زندگی
طوفاں سے بھی ملےتو بہ عزم جواں ملے
زندگی بڑی قیمتی ہے کہ ملتی ایک ہی بار ہے۔اس زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے لیے بھی عزم وحوصلے کی ضرورت ہے ۔
یہ کمال زندگی ہے، کہ جب آفتاب ڈوبے
تو فلک کو نور دے کر، نئی انجمن سجا دے
اسلام نے نکاح آسان کیا، ہم نے رسومات کے بندے بن کر مشکل بنادیا۔اسی طرح عورت کو خلاء کا حق دیا اور مرد کو ہوش میں اور حالت طہر میں طلاق کا طریقہ بتایا ۔مقدر سے اگر جوڑا الگ ہو جائے تو عدت گزار کر پھر نکاح کے لیے آسانی ہے، چاہیے دو چار بار ایسی صورت آ جائے۔جس نے زندگی دی وہی راہ بھی سجھائے گا۔بس حوصلہ شرط اور اپنی اصلا ح مقصود ہے ۔
شوہروں اور سسرال کا ظلم کبھی یکطرفہ ہوتا ہےاور اکثر کمیسٹری نا ملنے اور جہالت کا سبب بھی۔دین سے دوری دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا مغرورانہ اقدام بھی،تفاخر اور انا بھی نفسانیت اورشیطانیت بھی۔ زوج کی
سادگی،بےپروائ،پھوہڑ پن ،بے سلیقگی،زبان درازی،بد زبانی، ضد،ہٹ دھرمی، میکے کا غرور، حد درجہ غصہ، تمسخراور میکے میں بنا ذہن اور پرانی طرز پر اڑے رہنا بھی۔بار بار میکے جا نا، والدہ اور بڑی بہن کا سسرالی زندگی میں عمل دخل، لڑکی کو الگ رکھنے کا مطا لبہ یا جال بُننا، فیشن، نقالی، حرص، انفرادی آزادی، گھومنے پھرنے کا بڑا ہوا شوق، آمدنی سے زیادہ خرچ کا مطالبہ، اسراف اور بہت کچھ-
بچو مظوم کی آہ سے
اصحاب رسول کی تاریخ میں بھی طلاق وخلاء کی مثالیں موجود ہیں ۔مزاجوں کا میل نہ ہونا عام سی بات ہے۔بے جوڑ نکاح بھی اس کا سبب ہوسکتا ہے، صبر کی کمی بھی ایک امر ہو سکتا ہے ۔
زوجین کی زندگی
"انھیں اپنے ساتھ کھلاؤ پلاؤاور پہناؤ، ان کے چہرے پر نہ مارو اور نہ انھیں برا بھلا کہواور انھیں اپنے گھر کے سوا کہیں نہ چھوڑو”
(ابوداؤد)
شوہر کو بیوی کی پسندیدہ باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور ناپسندیدہ باتوں پر صبر کرنا چاہیے۔ان کی برائیوں کے مقابلے اچھائیوں اور عیب کے مقابلے محاسن پر نظر رکھنی چاہیے –
"ان کے ساتھ بھلے طریقے سے رہواگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور الله نے اس میں بھلائی رکھ دی ہو”(النساء19)
مدد کرو اپنے بھائی کی خواہ ظالم ہو یا مظلو م، یعنی ظلم سے روک کر دونوں کی مدد کریں ۔
ضرورت ہے کہ
(1)نکاح کوآسان بنایا جائے-رشتہ کا اچھا انتخاب کیا جائے ۔بے جا رسومات،جہز، خرافات، اسراف، تفاخر سے بچا جائے –
(2) زوجین کو اسلام کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے-ہر فرد کو سال دو سال کا کورس نہ سہی ایک مختصر نصاب سے گزارا جائے، چاہے وہ چند قرانی سورتیں مع ترجمہ، کچھ احایث اور آداب زندگی ،عائلی زندگی، گھرداری سے متعلق لٹریچر ۔
(3) زوجین کے لیے مشارت اور کاؤنسلنگ کے مواقع عام ہوں-
(4)Art of being happy
عورتیں ہنر مندی، سلیقہ شعاری اور ہمت سے بہرہ ور ہوں ۔احساس خودی، اعتدال، توازن، ہم آہنگی، وقار، میانہ روی، خوداعتمادی،صبروتحمل اخلاقی بلندی،ایثار،عفوودرگزر، عاجزی اور خیروشر کی تمیز ہو-پست ہمتی، کاہلی، تردّد، اندیشوں سے باہر نکل آئیے-
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمو
(5) عورتوں کو وراثت میں حق خوش دلی سے اور فرض سمجھ کر دیا جائے ۔مہنگے جہیز کی بجائے عمدہ تعلیم وتربیت سے شخصیت کی تعمیر کی جائے –
(6) مہر کی رقم معقول ہو، نقد ادا کردی جائے اور عورت کے تصرف اور اختیار میں ہو۔
(7) مرد قوام ہیں، نفقہ ان کی ذمہّ داری ہے وہ اس کے لیے ذمہ دار ہیں ۔عورت کی کمائی سے اگر تنازعات جنم لیں تواس سےبچنا ہی بہتر ہے۔
مسجد کے صحن میں بلّی نے بچّے دے دیے، صحابہ ان کو مار بھگانے لگے، آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
” مارو نہیں یہ ماں ہوگئی ہے ” الله الله امومت کا یہ شرف ۔۔۔۔۔ شوہر بیوی کے خوش گوار تعلقات کے لیے بھی دونوں ذمّہ دار ہیں –
"الله عدل واحسان اور صلح رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی وبے حیائی اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو-"(النحل:90)
(8)نکاح میں دین داری کو ترجیح دی جائے ۔
ڈھونڈنے والی نگاہیں ہیں اگر تیرے پاس
سنگ ریزوں میں بھی پوشیدہ گوہر ملتے ہیں
(9) مسائل کے حل کے لیے رشتہ داروں میں سے حکم بنا کر اصلاح کی کوشش کی جائے – اپنے عائلی زندگی کے فیصلے شرعی پنچایت ہی میں فیصل کیے جائیں -فریقین کے درمیان۔understanding اور Adjust کرنے کی عادت پروان چڑھائی جائے-
ایک عجیب سی جنگ ہے مجھ میں
کوئی مجھ سے ہی تنگ ہے مجھ میں
(10)محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنا کرتنازعات کے حل تلاش کریں، اس کے لیے محلے کی مسجد، امام، تنظیمی کمیٹی اور محلے کے علماء سے رجوع کیا جائے ۔
(11)عورتوں کو دینی اجتماعات اورینی تعلیمی پروگراموں میں شرکت کی رغبت دلائی جائے ۔نھیں اسلامی لٹریچرکے مطالعہ کا عادی بنایا جائے -مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔
(12) سماج کی با شعور، تجربہ کار، تعلیم یافتہ، اصابت رائے رکھنے والی خواتین کو فیصلہ کمیٹی میں نمائندگی دی جائے ۔ ظلم کے خلاف اور حق کی حمایت کے لیےمعاشرے میں بیداری لائ جائے –
خدا نے کیا اثر رکھا ہے درد انگیز نالوں میں
(13) شادی سے پہلے مردوعورت کی بھر پور کونسلنگ کی جائے ۔ انھیں اس رشتہ کو نبھانے، جوڑنے، توڑنے سے واقفیت کرائی جائے –
(14) بے جوڑ نکاح(کفو،خاندان،حسن وجمال،رنگ روپ، تعلیم،دین داری، معاش،تہذیب وتمدن، سماجی برابری، طور طریقے، اسٹیٹس) سے بچا جائے ۔ نکاح سے پہلے فریقین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔
(15) فریقین کی مرضی جاننےکے مواقع دیے جائیں ۔دباؤ میں یا کسی کی بات رکھنے کے لیے رشتہ نہ کریں۔ جیسے امّی کی خوشی کے کیے مان لیا ورنہ مجھے بالکل پسند نہیں ۔
(16)حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ نہ ہو، صبر کی عادت ہو- معافی ، درگزر، رواداری ،اور احسان کی روش اپنائی جائے ۔
خوش رہو خوش رکھو
love, Honesty, trust, joy, happy, passion, loyalresponsible, confident, kindness آپ کے گوہر آب دار ہیں ۔
(17) زوجین کو سنبھلنے کا خوب موقع دیا جائے ۔غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔اس لیے کہ
ہر رات کے بعد صبح، ہر غم کے بعد خوشی،، ہر ناکامی ومحروی کے بعد کامیابی وآسودگی انسان کی منتظر ہے ۔آپ کوشش کریں خزاں گلشن میں بدل جائے گی ۔
خوب صورت اور بہتر سوچنا
دشت میں رہنا، سمندر سوچنا
(18) مضبوط خاندان اور مثالی خاندان بنے کے لیے پورا خاندان اپنی ذّمہ داری ادا کرے-اصلاح کی فکر اورعملی تدابیر اختیار کر یں-
(19) دیگر علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے، فریقین کے حقوق وفرائض کی لازمی تعلیم کا انتظام کیا جائے –
(20) ازدواجی زندگی کو بہتر اور فریقین کے درمیان الفت، مودت، پیار، رحمت کی دعائیں کی جاتی رہے- الله کا وعدہ ہے-
"مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا”۔
یا رب کریم! بے بصیرتوں کو اپنا نور دے، کشتگان راہ ضلالت کو اپنا راستہ دکھا۔اے سچے معبود! دکھا دے کہ مظلوموں کا وارث،اور بیکسوں کا والی تو ہے۔
ََِِگِلہ اے تہمت دل اپنی محرومی کا ناحق ہے
وہی ہوتا ہے جو کچھ لکھ دیا جس کے مقدّر میں