تحریر: محمد دلشاد قاسمی
یوں تو جب سے انسان کا وجود ہے جرم اور برائیاں اس سے سرزد ہوتی رہی ہے مگر موجودہ دور میں جدید نظریات نے جو افکار اور نظریات وضع کیے ہیں انہوں نے پوری انسانیت کو جرائم کے راستے پر ڈال دیا ہے ان افکار و نظریات سے انسان میں مجرمانہ سوچ فروغ پا رہی ہے کیونکہ عصر حاضر کے جدید نظریات نے انسان کو سرے سے مذہب اور خدا کے تصور سے ہی آزاد کر دیا ہے جب خدا ہی نہیں رہا تو جواب دہی اور پابندیاں کیسی ؟
خدا کے بعد انسان کا ضمیر ہے جو اس کو جرائم اور مظالم سے روکتا ہے مگر جدید نظریات نے خود ضمیر کو مجرم بنا کر رکھ دیا ہے فرائڈ کے بقول انسان ایک شہوت پرست حیوان ہے اور یہی جنسی جذبہ زندگی کا خلاصہ ہے، یہاں تک کہ بچے کا ماں کے سینے سے دودھ پینا اور انگوٹھاچوسنا بھی جنسی خواہش کا مظہر ہے۔ فرائڈ نے مذہبی اخلاقیات کو تار تار کرکے رکھ دیا اور انسان کو منبع شہوت قرار دے دیا
ضمیر کے بعد سماج انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ برائیوں سے دور رہے اس کے متعلق فرائڈ کا فرمان ہے کہ سماج اور سماجی روایات یہ ایسے چوکیدار ہیں جو ہر وقت انسان کی گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی آدمی کی عزت کو پامال کر کے اپنے ماتحت اور تابع بنانا چاہتے ہیں لہذا اگر فرد کو اپنی نفسیاتی الجھنوں سے چھٹکارا پانا ہے تو چاہیے کہ وہ ان تمام رکاوٹوں اور روایات کے قید خانے سے اپنے آپ کو آزاد کرا لے ۔
خدا مذہب ضمیر اور سماج کے بعد اب صرف قانون رہ جاتا ہے جو جرائم کو روک سکے اس کے بارے میں بھی جدید نظریات نے گل افشانیاں کی ہے ان کے نزدیک مجرم سزا کا نہیں بلکہ ہمدردی کا مستحق ہے کیونکہ اس نے حالات سے مجبور ہو کر جرم کا ارتکاب کیا ہے ظاہر ہے ان افکار ونظریات سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ،، اور ان کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔
جرائم کے حقیقی اسباب کیا ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو موجودہ دور میں کچھ اسباب ایسے ہیں جن کی بنیاد پر عام طور پر جرائم رونما ہو رہے ہیں
(1) معاشی اسباب
موجودہ دور میں معاش نے غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے اور اسی پر انسان کی زندگی کی بقا ہے اس لئے ہر آدمی اس کے لئے فکر مند ہے جرائم کے رونما ہونے میں معاش تین پہلو سے نمایاں کردار ادا کرتا ہے افلاس ،، ناہمواری ،، اور مسابقت ،،
غربت سے مجبور ہو کر آدمی بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اور بسا اوقات اپنا ایمان بھی فروخت کر دیتا ہے موجودہ دور میں بندھوا مزدوری آپسی جھگڑے جہیز چوری ڈکیتی اور خودکشی وغیرہ بہت سے جرائم غربت ہی کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں حدیث میں غربت کو کفر سے قریب کرنے والی چیز بتایا گیا ہے عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر دن 75 کروڑ مرد عورتیں اور بچے بھوکے رہتے ہیں
ناہمواری
ایک طرف غربت ہے تو دوسری طرف دولت ہے دنیا میں اکثر یت غریبوں کی ہے لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اقتدار اور حکمرانی کی خواہش رکھتے ہیں اور دوسروں کو غلام بنانا چاہتے ہیں اس معاشی ناہمواری کی وجہ سے غریب طبقہ اور دولت مند طبقہ میں ایک طرح کی کشمکش جاری رہتی ہے اور اسی کشمکش کی وجہ سے طرح طرح کے جرائم رونما ہوتے ہیں اور دولت مند حضرات ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں غریب کھانے کو ترستا ہے اور مالدار فضول خرچی کرتا ہے اس کی وجہ سے مال داروں کے خلاف نفرت اور عداوت پروان چڑھتی ہے اور معاملہ عداوت ، دشمنی اور سازشوں تک پہنچتا ہے لہذا معاشی ناہمواری کی وجہ سے اور بھی بہت سی اخلاقی اور سماجی خرابیاں رونما ہوتی ہے۔
مسابقت
جو لوگ دولت مند ہیں ان کے درمیان بھی آپس میں کشمکش چلتی ہے وہ ایک دوسرے سے نہ صرف آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں بلکہ اپنے مقابل کو نیچا ثابت کرنے کے جذبات ان میں پوری طرح موجود ہوتے ہیں پھر اس کے لیے وہ ہر طرح کے ذرائع ہتھکنڈے اور سازشیں کرتے ہیں ۔
سماجی عدم مساوات اور نسلی امتیاز
دنیا کے بعض معاشروں میں انسانوں کے درمیان سماجی نابرابری اور نسلی امتیاز کا تصور صدیوں سے جاری ہے جسے ہندوستان میں اعلی ذات اور نیچی ذات کا تصور دیا یورپ اور امریکا میں سیاہ فام اور سفید فام کے درمیان امتیازانہ رویہ اور اسی کی بنیاد پر بھیانک جرائم رونما ہوتے ہیں
سماجی قدروں کا فقدان
شہروں میں جرائم میں اضافے کا سبب عام سماجی قدروں کا ختم ہونا اور معاشرے کا انتشار بھی ہے آج سماجی قدریں ختم ہوگئی ہے آپسی تعلقات اور خاندانی روایات محبت اور لگاؤ کی جگہ نفرت اور دوری نے لے لی ہےاس کی بہت ساری وجہ ہے ۔جو بھی ہو بہرحال اس سے عام آدمی کے اخلاق اور برتاؤ پر اثر پڑتا ہے ایک دور تھا کہ جب آدمی پر سماج اور معاشرے کا دباؤ رہتا تھا اور وہ محض اس وجہ سے مختلف برائیوں کے ارتکاب سے خود بچ جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں معاشرہ اور سماج کا شیرازہ منتشر ہو چکا ہے ہر آدمی اپنے آپ کو آزاد اور دوسروں کی جوابدہی سے بالاتر سمجھتا ہے اور یہ چیز بھی جرم کا سبب بنتی ہے۔ ایسی صورت میں ضرورت ہے کہ معاشرے کو دوبارہ منظم کیا جائے اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تاکید کی ہے کہ جماعت اور اجتماعیت کو لازم پکڑوں علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انسان کی زندگی دو چیزوں پر منحصر ہے ۔مصالح کا حصول، اور مفاسد کا دفعیہ اور اس کے لیے لازم ہے کہ لوگ اجتماعیت کے ساتھ رہیں ۔
سیاست میں جرائم
جرائم کے رونما ہونے میں بعض اوقات سیاست بھی رول ادا کرتی ہے خصوصا موجودہ دور میں ایک مجرم اور ایک سیاستدان میں تمیز اور تفریق مٹ گئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاستدانوں نے جرائم کرنا شروع کر دیے ہیں اور مجرموں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے گویا کل جو مجرم تھا آج وہ سیاست داں ہیں
پولس کی بدعنوانیاں
جرائم کے رونما ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب پولیس کا جرائم پیشہ لوگوں سے ربط بھی ہے پولیس کے اعلیٰ افسروں کو قانون شکن اور بڑے مجرموں کا پتہ ہوتا ہے لیکن وہ ذاتی مصلحتوں کی بنیاد پر انہیں نظرانداز کرتے رہتے ہیں بعض اوقات پولیس مجرموں کو چھوڑ کر بے گناہوں کو سزا دیتی ہے جس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور بے گناہ اور معصوم لوگوں میں اپنے نا کردہ جرم کی سزا پانے کے عوض، ان میں جرائم کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پولیس کو مناسب تربیت نہیں دی جاتی انہیں اتنا بھی سلیقہ نہیں ہوتا کہ بڑوں سے کیسے بات کرنی ہے مذہبی پیشواؤں سے کیسے بات کرنی ہے اور معاملے کو اچھے انداز میں کیسے حل کرنا ہے انہیں صرف بدتمیزی کرنی آتی ہے یا پبلک پر ظلم کرنا آتا ہے یا رشوت لینی آتی ہے
سائنس کا غلط استعمال
سائنس اور سائنسی ایجادات انسان کی بھلائی کے لئے وجود میں لائی گئی ہے لیکن آج ان کا استعمال نہ جائز فائدوں کو حاصل کرنے میں اور ناجائز چیزوں میں کیا جارہا ہے مثال کے طور پر الٹراساؤنڈ ایک مفید ایجاد ہے اور اس سے ماں کے پیٹ میں بچے کا پتہ چل جاتا ہے کہ بچہ ٹھیک ہے یا بچے کے اندر کوئی نقص ہے اور پھر اس کے حساب سے اس کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس مفید طریقے کا استعمال بچے کی جنس جاننے کی غرض سے کیا جا رہا ہے اور ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی صورت میں اس کو مار دیا جاتا ہے ۔
جرائم کے اسباب کے تعلق سے جن پہلوؤں پر میں نے روشنی ڈالی ہے ان کو اہم کہا جا سکتا ہے لیکن ان کے صرف یہی اسباب اور صرف اتنے ہی پہلو نہیں ہے بلکہ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا اور بھی بہت سے اسباب ہیں بعض انفرادی آزادی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں تو بعض جمہوریت کے ایوانوں اور اس کے نظریے میں حتی کہ بعض جرائم مذہب کا لبادہ پہن کر بھی پیدا ہوتے ہیں ۔
جرائم کی روک تھام میں موجودہ قوانین کی ناکامی
انسانی تاریخ میں جرم کو ہمیشہ نا پسند کیا گیا ہے اور اس کے انسداد کی مختلف تدابیر بھی کی گئی ہے لیکن ان سب کے باوجود مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے آخر ایسا کیوں؟
اس بارے میں اگر موجودہ قوانین پر غور کیا جائے تو اس قانون میں بنیادی طور پر پانچ خامیاں موجود ہیں ۔
پہلی خامی یہ ہے کہ قانون کو جرائم کے انسداد کا مکمل ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کی حیثیت ایک اضافی ہے اور "اخلاق جو اصل ہے” اس سے نہ صرف غفلت برتی جاتی ہے بلکہ اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی صرف قانون کی بنیاد پر مکمل پر امن اور جرائم سے پاک معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قانون صرف حکم نافذ کرتا ہے وہ انسان کے جذبات اور احساسات کا لحاظ نہیں کرتا صرف اس وجہ سے انسان جرم کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ وہ چیز قانون کی رو سے منع ہے اس کے لئے ترغیب وترہیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اخلاق اور تربیت جرائم کو روکتے ہی نہیں بلکہ آدمی کے اندر جرم کے خلاف شعور پیدا کرتے ہیں اور اچھے اور برے کے درمیان تمیز سکھاتے ہیں اخلاق کا مرکز انسان کا جسم اور ظاہر نہیں بلکہ انسان کا دل ہوتا ہے اور دل ہی مختلف احساسات اور جذبات کا مرکز ہے صرف اخلاق ہی وہ چیز ہے جو انسان کو برائیوں اور جرائم سے بچنے کے لئے انسان کو اندر سے تیار کرتا ہے لیکن اس کے بالکل برعکس موجودہ دور میں قانون پر مکمل انحصار کرتے ہوئے نہ صرف اخلاق اور اخلاقی قدروں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ اخلاق کو بگاڑنے اور ان کو خراب کرنے والے سارے ذرائع کو آزادی دی گئی ہے مثال کے طور پر قتل، زنا، اور چوری، کو قانوناً جرم قرار دیا گیا ہے لیکن بے حیائی اور فحاشی کے سارے راستے کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں اگر لڑکا اور لڑکی کی رضامندی سے زنا ہو تو یہ سرے سے جرم ہی نہیں چاہے اس سے جتنے بھی سماجی، معاشرتی، اور اخلاقی، مسائل پیدا ہو یہ جرم اس وقت بنتا ہے جب کسی ایک کی طرف سے جبر سے کام لیا جائے ۔
دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ مجرم کے ساتھ ہمدردی کا غلط تصور قائم کر لیا گیا ہے جس سے معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔
تیسری بڑی خامی یہ ہے کہ معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس مفقود ہے اور انفرادی مقاصد کا غیر معمولی غلبہ ہے دراصل قانون کا نفاذ زور زبردستی اور محض عدالتی کارروائیوں سے نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے اجتماعی شعور اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس ضروری ہے ایک آدمی کے لیے جرائم کے وسائل اور مواقع حاصل ہو تو وہ جرم سے صرف اس لئے بعض نہیں رہ سکتا کہ اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ وہ اس وقت جرم سے باز رہ سکتا ہے جب خود اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ جرم ناپسندیدہ عمل ہے اور اس سے معاشرے پر غلط اثرات مرتب ہوں گے ۔
چوتھی بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں چیزوں کو خلط ملط کر دیا گیا ہے یعنی جو چیز ذمہ داری کے تحت آتی ہے اس کو حقوق کا درجہ دے دیا۔
مثال کے طور پر
freedom of speech
بولنے کا حق ، یہ ہمارا قانونی رائٹ ہے اگر ہم معاشرے کے اندر کچھ غلط دیکھیں یا حکومت کی غلط پالیسیاں دیکھیں یا کسی پولیٹیشن کی غلط حرکتیں دیکھیں تو ہمارا قانونی ادھکار ہے کہ ہم اس پر بول سکتے ہیں اگر غور کیا جائے تو freedom of speech ہمارا حق نہیں ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے آپ فرض کریں اگر یہ ہمارا حق ہو اور ہم معاشرے کے اندر وئی برائی دیکھیں تو اب اگر ہم چاہیں تو اس حق کو استعمال کرے اور چاہے تو استعمال نہ کریں تو اس صورت میں اس حق کو ہم اپنے مخالفوں میں تو استعمال کریں گے لیکن ہمارے اپنوں کے اندر اگر برائیاں ہوگی یا غلطیاں ہونگی تو استعمال نہیں کریں گے اس طرح معاشرے میں جرائم کا انسداد نہیں ہو سکتا اور اگر اس رائٹ کو ذمداری بنا دیا جائے جیسا کہ قرآن کریم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ذمہ دار قرار دیا ہے تو پھر ہم برائی اپنوں میں دیکھیں یا دوسروں میں وہ ہم جگہ بولیں گے کیونکہ اب یہ اس کی ذمداری بن گئی ۔ اور اس طرح معاشرے سے جرائم کا انسداد ہوگا ۔
پانچویں بڑی خامی یہ ہے کہ خود قانون کے اندر بے شمار کمیاں موجود ہیں ظاہر ہے کہ جو خود قابل اصلاح ہو وہ دوسروں کی اصلاح کیسے کر سکتا ہے
مثال کے طور پر موجودہ دور میں ہر جرم کی سزا قید کی صورت میں دی جاتی ہے چاہے اس نے بڑا جرم کیا ہوں یا اس نے کوئی معمولی جرم کیا ہو اس کی سزا ہر حال میں قید ہوتی ہے چنانچہ موجودہ جیل کے نظام پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مجرموں کی اصلاح کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جیل جانے والوں کے یہ تاثرات بھی دیکھیں گئے ہے کہ اگر جیل ہی جانا ہے تو کوئی بڑا جرم کر کے جانا چاہیے لہذا موجودہ نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کی واحد شکل یہ ہے کہ جرم جس قدر سنگین ہو سزا بھی اتنی ہی سنگین ہونی چاہیے ۔
جرائم کے روک تھام کی تدابیر
جرائم کے رونما ہونے کی جہاں بہت سی وجہ ہے ان میں سے بغض اور نفرت بھی ہے بغض اور نفرت غصہ اور حسد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور غصہ اور حسد کے جذبات مختلف نفسیاتی اور سماجی اسباب کے تحت جنم لیتے ہیں اسلام نے تلقین کی ہے کہ آدمی خود بھی ان منفی جذبات بچے اور دوسروں کو بھی بچائے یعنی وہ ایسے اسباب پیدا نہ کریں کہ دوسروں کے دلوں میں اس کے متعلق غصہ اور حسد کے جذبات پیدا ہو چنانچہ اس کے لئے اسلام نے مختلف اور آسان تدابیر بھی بتائی ہیں جن سے نفرت اور کدورت دلوں سے ظاہر ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔
اس کے لئے اسلام نے بہت سارے اصول بتائے ہیں مثلاً ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا وہ چاہے ماں باپ کے حقوق ہو پڑوسیوں کے حقوق ہو بھائی بہن کے حقوق ہو یا معاشرے کے حقوق یا اولاد کے حقوق پھر آپس میں سلام کرنا مصافحہ کرنا ایک دوسرے کو کھانا کھلانا ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا یہ سب چیزیں آپس میں نفرت و کدورت کو دور کرنے کا ایک بہترین نسخہ ہے ۔
آخری بات موجودہ دور میں جرائم کے رونما ہونے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ انسان کے پاس اس کی زندگی کا کوئی واضح تصور اور پاکیزہ مقصد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مادہ پرستی اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کر دیتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے۔ اور مغربی تہذیب نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انسان کا وجود بے مقصد نہیں بلکہ خالق کائنات نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے اس کے وجود کے مقصد کا تعین کردیا ہے اور اس کا انجام اور ایک منزل بھی بتا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش کی جائے گی اور اس کے اعمال کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے گا
الذي خلق الموت والحياه ليبلوكم ايكم احسن عملا
اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھیں کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔
اگر مذکورہ تمام چیزوں پر عمل کیا جائے تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ تو آنے والا مستقبل اور زیادہ تاریکی میں ہے ۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی