ازقلم: محمد شاہد علی مصباحی (باگی، جالون)
رکن روشن مستقبل دہلی ،تحریک علمائے بندیل کھنڈ
ہمارے قریبی قصبہ کدورہ کی شاہی جامع مسجد کے امام کی تنخواہ 4500 روپے ہے، اور نکاح پڑھانے میں جو ملے وہ آدھا مسجد کو اور آدھا امام کو ملتا ہے۔
اسی مسجد سے متصل ایک مسجد ہے جسے چھوٹی مسجد کہا جاتا ہے۔
اس مسجد کے لوگوں نے امام کے لیے مجھ سے کہا تو میں نے تنخواہ پوچھی، ان لوگوں کا جواب تھا 3000 روپے اور نکاح وغیرہ پڑھا نہیں سکتے؛ وہ جامع مسجد کے امام پڑھائیں گے۔
مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا کیوں کہ یہ تو میں بھی جانتا تھا کہ جامع مسجد سے زیادہ تنخواہ تو ہوگی نہیں۔
مگر میں نے ان بچوں کو سمجھایا یہاں تک کہ وہ چھ ہزار تنخواہ دینے پر راضی ہوگئے اور کچھ دنوں بعد مزید تنخواہ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا۔
اس دوران جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف سے فارغ ایک عالم دین سے بات ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ عالم صاحب مسجد پہنچتے علاقے ہی کہ ایک حافظ صاحب کو خبر ہوئی کہ جگہ خالی ہے تو وہ پہنچ گئے اور راضی جس بات پر ہوگئے وہ تعجب کا مقام ہے۔
وہ حافظ صاحب کمیٹی والوں کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے امام رکھ لیں، کمیٹی نے پوچھا کہ تنخواہ کیا لیں گے تو جناب عالی نے فرمایا: "اگر پانچ ہزار دے دیں تو ٹھیک ہے ورنہ اور کچھ بھی کردیں گے تب بھی چلے گا۔”
اس کے بعد بات کھانے کی آئی تو میں نے کھانا پہنچانے کی بات طے کی تھی مگر جناب عالی حافظ صاحب قبلہ اپنے پیسوں سے کھانا بناکر کھانے پر از خود راضی ہوگئے۔
کمیٹی کو اور کیا چاہیے تھا! میرے پاس فون آیا اور کہا کہ امام صاحب مل گئے ہیں آپ ان کو منع کردیں۔
اور کہا: "آپ بول رہے تھے کہ کھانا دینا پڑے گا، تنخواہ بڑھانی ہوگی۔ مگر وہ اپنے کھانا کے ساتھ خود سے پانچ ہزار بول رہے تھے تو ہماری کمیٹی نے اُنھیں کو رکھ لیا۔”
عالی قدر حافظ صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی نے مجھے بھی بے وقعت کیا کہ فلاں صاحب زبردستی میں تنخواہ زیادہ دلوانا چاہتے تھے۔ اور خود کا بھی نقصان کیا۔
جب تک ہمارے اندر ایسے امام حضرات موجود ہیں تب تک تنخواہ بڑھاؤ مہم کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اگر تنخواہیں بڑھوانی ہیں تو طلبہ کو فارغ ہونے سے پہلے خود اعتمادی کے ساتھ ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے یہ سمجھانا ہوگا ورنہ یہ مہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکے ہوگی۔
اللہ کرے ہمارے امام حضرات اپنی وقعت و اہمیت سمجھیں۔