محترم سید افضل میاں برکاتی صاحب کی رحلت کی خبر سن کر حد درجہ افسوس ہوا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
گذشتہ ایک سال سے صحت کے اتار چڑھاؤ میں یک گونہ امید تھی کہ جلد ہی آپ شفا یاب ہوکر لوٹیں گے اور فکر وفن کی محفلوں کو حسب سابق زینت بخشیں گے مگر…
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
عقیدت مندان مارہرہ کا انتظار طویل ہوتا گیا مگر افضل میاں نہ لوٹے اور روز محشر ملنے کا وعدہ کرکے دوسرے جہان کے لیے روانہ ہوگئے:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
حضرت افضل میاں جہاں دنیوی اعتبار سے قابل رشک مقام ومنصب کے حامل تھے وہیں آپ کا دینی شعور بھی قابل دید تھا۔فکر وتدبر کانفرنس کے موقع پر آپ کا بصیرت افروز خطاب سننے کا موقع ملا اس سے اندازہ ہوا:
سیپ کے اندر ہے کیا اس کا پتا سب کو کہاں
باریک بینی، نکتہ دانی اور لطیف پیرایہ میں زبان وبیان کے اعلی اسلوب کے ساتھ کلام کرنا آپ کی خصوصیات میں سے تھا۔جب آپ گفتگو فرماتے تو اہل علم پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتے۔دوران گفتگو فکر رضا سے استفادہ کرتے ہوئے نئے نئے نکات بیان فرماتے تو کہیں محفل کو پر لطف بنانے کے لیے اعلی حضرت کے اشعار بھی سناتے۔سیدھے سادے لفظوں میں کہا جائے تو آپ کی موجودگی محفل کو لالہ زار بنانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔
اپنی فکرو نظر اور زبان وبیان سے محفلوں کو زینت بخشنے والا زندہ دل شہزادہ سب کو رنج و غم کے آنسوؤں میں چھوڑ کر صاحب البرکات کے جلووں میں جا بسا اور دینی وعلمی محفلوں کو سنسان کرگیا۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
شریک غم: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی