ایم ودود ساجد
میرے بہت محترم صحافی دوست شکیل رشید نے میری صبح کی پوسٹ پر جو لکھا اس نے مجھے تڑپا دیا۔۔ انہوں نے ممبئی شہر کے تعلق سے بہت ہی ہوش ربا نکات درج کئے ہیں ۔۔۔ آپ بھی پڑھئے:
"….. بھائی ودود ساجد یہ غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی کی وباء خطرناک رخ اختیار کر رہی ہے ۔ممبئی میں روزانہ کچھ لڑکیاں کورٹ میرج کر رہی ہیں ۔حیرت یہ ہے کہ ان میں ان گھروں کی بچیاں بھی ہوتی ہیں جو مذہبی ہوتے ہیں ۔مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ اس سلسلے میں کام کر رہا ہے وہ باقاعدہ کورٹ نوٹس کا مطالعہ کر کے گھروں میں پہنچ کر بچیوں کو سمجھاتا ہے جن کی قسمت میں ایمان ہوتا ہے وہ تو مان جاتی ہیں اور شادی نہیں کرتیں لیکن زیادہ تر بچیاں نہیں مانتیں والدین بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔اب سنا ہے کہ کورٹ نوٹس کو عام کرنے کا یہ سسٹم بند ہونے والا ہے ۔ دوسری طرف وہ بچیاں ہیں جو کورٹ جائے بغیر بھاگ جاتی ہیں ۔معاملہ سنگین ہے اور اس کا حل نکلنا ضروری ۔ رہی بات والدین کی تو اکثر یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے تو اپنی بچی کو خوب دین سکھایا تھا یہ کیسے ہو گیا؟ شاید انہیں ہوش ہی نہیں رہتا کہ بچی پر نگاہ رکھیں ۔میں اس ضمن میں علماء کو ان کے رول کی یاد نہیں دلاؤں گا کیونکہ وہ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اس پر خوب بات کی ہے نصیحت کی ہے ڈرایا ہے ۔۔۔۔”
شکیل رشید صاحب کے اس بہت اہم تبصرے پر میں نے جو لکھا وہ یہ ہے:
"… شکیل بھائی۔۔۔ آپ نے بڑی ہوش ربا خبر دی ہے۔۔ لیکن کیا کبھی خود ان کے ماں باپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔۔۔؟ یا سمجھ داراہل محلہ’ اہل علاقہ اور اہل شہر نے کبھی اس کا جائزہ لیا۔۔۔؟
آپ کی اطلاع کے مطابق اگر ایسا مذہبی گھرانوں میں ہورہا ہے تو پھر علماء کا کیا قصور۔۔۔؟ جب یہ مذہبی گھرانے ہی اپنی لڑکیوں کو نہیں روک پا رہے ہیں تو یہ علماء کیسے روک پائیں گے جن کو یہ لڑکیاں دن رات گالیاں دیتی ہیں ۔۔۔ اگر یہ لڑکیاں اپنے دین دار ماں باپ کو دیکھ کر بھی غیروں کے ساتھ کورٹ میریج کر رہی ہیں تو پھر اسلام کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
حیرت ہے شکیل بھائی کہ کوئی جاکر ان کے "مذہبی” ماں باپ سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر رہا ہے لیکن علماء کے کان ضرور اینٹھے گا۔۔۔ کیا علماء کو ان کے ماں باپ نے کوئی ٹھیکہ دیا تھا۔۔۔ کوئی فنڈ دیا تھا کہ ان کی لڑکیوں پر نظر رکھنا اور انہیں غیروں کے ساتھ بھاگنے مت دینا۔۔۔ کیا علماء کا یہی کام رہ گیا ہے۔۔ شکیل بھائی’ غور کیجئے گا۔۔۔ میں اپنے گھر کا خود ذمہ دار ہوں شکیل بھائی ۔۔۔
بحمد الله میرے چار بچوں میں بڑی اولاد دو بیٹیاں ہیں ۔۔۔ بچپن سے یہ وقت آگیا ہے ‘ خود اسکول کالج چھوڑ کر آتے ہیں ۔۔ خود لے کر آتے ہیں ۔۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے میں خبر گیری کرتے ہیں ۔۔ رات کو لے کر بیٹھتے ہیں ۔۔ ان سے مسائل پوچھتے ہیں ۔۔ انہیں فرائض بتاتے ہیں ۔۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تم کون ہو اور تمہاری ذمہ داری کیا ہے۔۔
انہیں بتاتے ہیں کہ تم سے ہماری عزت وآبرو وابستہ ہے۔۔۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تم خدیجہ’ عائشہ اور فاطمہ ہو۔۔۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تم سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت وابستہ ہے۔۔۔ انہیں عشق حقیقی اور عشق مجازی کا فرق سمجھاتے ہیں ۔۔ انہیں خود سے نہیں ڈراتے بلکہ انہیں ماں باپ کی بات نہ مان کر عشق کی شادی کرنے والیوں کے انجام کی داستانیں سناتے ہیں ۔۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے بھلے برے کو تمہارے ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔
مذہبی گھرانوں کو یہ کیوں نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی بچیوں کی شادیاں بالغ ہوتے ہی کردیں ۔۔۔ کیا یہ کام کرنے کوئی مولوی آئے گا۔۔۔؟ شکیل بھائی سارا قصور بے فکر اور غافل ماں باپ کا ہے۔۔۔ وہ ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں ۔۔۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ انہیں اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ ان کی بچی ایک غیر کے ساتھ بھاگ گئی ۔۔۔ یہ تو آپ اور ہم ہیں جو تڑپتے ہیں ۔۔۔”