تحریر: اسجد راہی، ایڈیٹر قومی ترجمان
ہر سال ریاست بہار میں اردو ڈایریکٹوریٹ و اردو زبان سیل کی جانب سے ریاست کے تمام اضلاع میں "فروغ اردو سمینار” کا انعقاد بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا جاتا ہے، بڑے بڑے پوسٹر و بینر میں دو چار پروفیسر، شاعر اور چند مخصوص لوگوں کے نام اشتہارات و پوسٹر وغیرہ میں بڑے بڑے حروف میں چھپوا دئے جاتے ہیں، اور پھر متعلقہ ضلع کے محکمہ تعلیم سے اردو اساتذہ کے نام شاہی لیٹر جاری کر دیا جاتا ہے کہ فلاں دن ضلع کے تمام اساتذہ کی "فروغ اردو سمینار” میں حاضری لازمی ہوگا اور قابلِ ذکر یہ کہ حاضری رجسٹر میں اندراج ہوگا۔پھر طئے شدہ دن اور وقت مقرر پر کسی میموریل ہال وغیرہ میں پروگرام شروع کر دیا جاتا ہے، نظامت کے فرائض انجام دینے والے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے مندوبین و مقالہ خاں حضرات کو یکے بعد دیگر مدعو کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف شرکاء حاضری کے اندراج میں لگے رہتے ہیں۔ خیر! مندوبین یا مقالہ پیش کرنے والے اردو زبان کی ترقی و وبقاء پر زبردست و گوناگوں لیکچرر دے رہے ہوتے ہیں، کوئی اردو کے مسائل کی باتیں تو کوئی اپنوں کی بیزاری کا شکوہ کر رہے ہوتے ہیں اور اس طرح پہلی نشست ختم ہو جاتی ہے۔دوسری نشست میں جب شعراء اپنا بیش قیمتی کلام پیش کرنا شروع کرتے ہیں تو لوگ گھروں کی جانب کوچ کرنے لگتے ہیں اور کرسیاں خالی ہونے لگتی ہیں۔اور دھیرے دھیرے نشست پر تاریک سکوت کا سماں بندھ جاتا ہے اور یونہی یہ شاہی پروگرام بام عروج کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط اردو کی باتیں کرنے سے اردو کا بھلا ہو جائے گا؟ کیا اردو پر زبردست لیکچرر پیش کر دینے سے اردو کا فروغ ہوگا؟ کیا سال میں ایک دفعہ ایسے پروگرام منعقد کر لینے سے اردو زبان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یا عملی طور پر کچھ اقدامات کرنے ہوں گے؟ یہاں ایک بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ لوگ فیس بک اور دیگر سوشل پلیٹ فارم پر اپنی سیلفی کے ساتھ کئی طرح کے پیغامات دینے کی کوشش کرتے نظر آ جاتے ہیں کہ "فروغ اردو سمینار” میں "دن کے 2 بجے بیشتر کرسیاں خالی ہو گئیں” اسی طرح اردو اساتذہ نے رجسٹر میں حاضری ہندی میں درج کر دیا وغیرہ ۔ یہ سب دیکھ اور پڑھ کر عجیب بھی لگتا ہے کہ اردو اساتذہ بحال تو اردو سے ہیں لیکن ہندی میں وہ ایسے مستغرق ہو چکے ہیں کہ وہ اب نہ اردو پڑھتے ہیں اور نہ پڑھانا چاہتے ہیں بس کسی بھی طرح انہیں تنخواہ ملتے رہے،بھلے ہی اردو زبان کا بھلا ہو نہ ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک کمی تو فروغ اردو سمینار کے انعقاد میں یہ ہے کہ اسے ضلع کے تمام بلاک سے عملی طور پر جوڑا نہیں جاتا ہے، ہونا تو چاہیے تھا کہ ہر بلاک سے ایک دو اساتذہ کو اس پروگرام میں اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جائے تاکہ کس بلاک میں کیا مسائل درپیش ہیں وہ سامنے آ سکے ۔
دوسری کمی اردو کے نام پر بنے سینکڑوں تنظیموں کی طرف سے ہے وہ صرف لمبا لمبا چھوڑنا جانتے ہیں زمینی حقائق سے نہ انہیں کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی رغبت، بس اپنی روٹی سینکتے رہنا ہے سو جاری رہے ۔اردو تنظیمیں گر زمینی سطح پر کچھ کام کرنا چاہتی ہیں تو وہ ہر بلاک میں اردو اساتذہ کی تربیت و ٹریننگ منعقد کروائے اور اساتذہ کی پیش رفت کا کم از کم سہ ماہی جانچ کیا جائے۔ ہر بلاک میں کچھ ایسے افراد تیار کئے جائیں جو یہ نگرانی کر سکیں کہ کس اسکول میں اردو کی تعلیم ہو رہی ہے اور کس میں نہیں ۔ہو رہی ہے تو معیار کیا ہے اور نہیں ہو رہی ہے تو کیوں نہیں؟ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ دینے سے اردو کا بھلا نہیں ہونے والا ہے، اب دیکھیں کہ ایسے لوگ بھی سوشل میڈیا پر اردو کے فروغ کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں جو نہ خود اردو پڑھتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں، نہ پڑھانا چاہتے ہیں، تو بتلائیے بھلا صرف زبانی جمع خرچ سے اردو کا فروغ ہو جائے گا یا ہمیں سنجیدگی سے اس کے لئے زمینی سطح پر اقدامات کرنے چاہئے۔
"وہ جو اردو کی بدحالی کا سبب ہوا” اس زبوں حالی کے لئے خود ہم ذمہ دار ہیں، حکومت کو ہم دوش بھی نہیں دے سکتے کیونکہ حکومت نے بہت حد تک اردو اساتذہ کی تقرری کر کے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے اب اگر اساتذہ اردو پڑھانے کے بجائے دوسری زبان کو پڑھانا فخر سمجھنے لگیں تو اس کے لئے حکومت کو قصوروار ٹھہرایا جانا مناسب نہیں ہے ۔اردو ڈائریکٹوریٹ بھی حالیہ دنوں میں پہلے سے بہت زیادہ متحرک ہے لیکن کیا متحرک رہنا ہی سب کچھ ہے یا پختہ لائحہ عمل تیار کر کے اسے زمین پر اتارنا ہوگا کہ اردو کے فروغ کا خواب شرمندہ تعبیر بھی ہو سکے۔باتیں لکھنے کہنے کی بہت سی ہیں لیکن فائدہ کیا؟ المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی صرف اردو کی ترویج و ترقی کی باتیں کرتے ہیں،لوگوں کو دوسروں کے اصلاح کی فکر لگی رہتی ہے لیکن صد حیف خود پرتوجہ کوئی نہیں دینا چاہتا۔حالات یونہی رہے تو اردو فقط کتابوں میں سمٹ کر رہ جائے گی۔