ازقلم: ابوالمتبسِّم ایاز احمد عطاری
عید کے دن بچے خوشیاں منا رہے تھے ، اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، کھیل کود رہے تھے ، لیکن ایک بچہ گھر سے نکلا اور قبرستان چلا گیا اور ایک قبر کے پاس بیٹھ کر کچھ اس انداز سے کہہ رہا تھا کہ میں عیدی کس سے مانگو ، اب کون اچھے کپڑے مجھے دے گا ، اب میں کس کو تنگ کرونگا۔ اس طرح سے بچہ کہتا جاتا اور اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔
پیارے بھائیو! والد ، والد ہوتے ہیں ، والد اگر کچھ بھی نہ کرے تب بھی اس کا سایہ اولاد کیلئے بڑا سہارا ہوتا ہے۔
والد وہ ہستی ہیں جو غصہ تو ضرور کرتے ہیں ، لیکن کبھی اپنی اولاد کے بارے میں بُرا نہیں سوچا جب بھی کچھ کرتے ہیں اولاد کی اچھائ کیلئے کرتے ہیں۔ گرچہ وہ اچھائ ہمیں فی الوقت سمجھ نہ آرہی ہو۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ والد سورج کی مانند ہیں گرم تو ضرور ہے لیکن روشنی ضرور دیتے ہیں۔ جب والد چلے جاتے ہیں تو اولاد کی زندگی اندھیری سی ہوجاتی ہے کیونکہ سورج چلا گیا۔
والد وہ ہستی ہیں جو چھت کی مثل ہیں اس کے نیچے اس کی اولاد آرام کررہی ہے ، جو بھی پریشانیاں آتی ہیں والد ان کو روک لیتے ہیں اولاد پہ آنے نہیں دیتے۔ لیکن جب یہ ہستی اس دنیا سے چلی جاتی ہے تو پریشانیاں اولاد پر آجاتی ہیں ، اس وقت اولاد کو پھر والد کی قدر ہوتی ہے کہ والد کیا چیز ہیں۔
اور اب اولاد کو لگ پتہ جاتا ہے کہ والد واقعی ایک چھت تھے جس کے نیچے ہم آرام سے زندگی بسر کررہے تھے۔ لیکن اب صرف افسوس کے سواء کچھ ہاتھ نہیں آنے والا.
لہذا اے میرے پیارے بھائیو! جن کے والد حیات ہیں۔
ان کی قدر کرلیں ،
ان کی خدمت کرلیں ،
ان کا دل خوش کرلیں ،
ان کی فرمانبرداری کریں ؛
ان کا حکم مانیں ، جب تک وہ حکم خلاف شرع نہ ہو۔
نہ جانیں کب یہ ہستی اس دنیا سے چلی جائے۔ اور آپ کفِ افسوس ملتے رہیں۔
اللہ کریم کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ جن کے والد صاحب حیات ہیں ان کو درازی عمر بالخیر عطا فرما۔ اور جن کے اس دنیا سے چلے گئیں کہ ان کی بلا حساب بخشش فرمائے۔ آمین بجاہ طہ و یسین