ازقلم: بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور
عقائد حقہ
عَنْ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ – أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ ". (صحيح البخاري، كِتَابٌ : أَحَادِيثُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، قَوْلُهُ : يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ، الحدیث ٣٤٣٥)
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت – رضي الله عنه – سے مروی ہے کہ نبی کریم – ﷺ – نے ارشاد فرمایا : جس نے یہ گواہی دی کہ خدا کے سوا کوئی حق معبود نہیں ، اور محمد – ﷺ – اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم تک پہنچایا اور اس کی مخلوق ہیں، اور جنت و دوزخ حق ہے – اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا جو بھی اس جے عمل کیا ہو –
اس حدیث کی جامعیت
حضور جامع الکلم – ﷺ – کی بڑی جامع احادیث میں سے یہ مذکورہ بالا حدیث بھی ہے؛ جیسا کہ امام نووی – رحمة الله عليه – نے اپنی شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے :
هذا حديث عظيم الموقع وهو أجمع أو من أجمع الأحاديث المشتملة على العقائد فإنه صلى الله عليه وسلم جمع فيه ما يخرج عن جميع ملل الكفر على اختلاف عقائدهم وتباعدهم فاختصر صلى الله عليه وسلم في هذه الأحرف على ما يباين به جميعهم – (شرح مسلم بشرح مسلم، ج١، ص٢٢٧، مطبوعہ المطبعة المصرية بالأزهر)
یعنی : یہ حدیث عظیم معنویت کی حامل ہے اسے یوں کہہ لیں کہ سب سے جامع حدیث ہے یا پھر عقائد پر مشتل جامع احادیث میں سے ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ – ﷺ – اس ایک ہی حدیث میں جمع کر دیا ہے ان تمام باطل عقائد کو جن کی وجہ سے تمام باطل مذاہب و ملل اسلام سے نکل گئے؛ چناں چہ حضور – ﷺ – نے اختصارا انھیں الفاظ سب کچھ جمع فرما دیا –
واقعی اس حدیث کو اجمع الاحادیث میں شمار کرنا صد فیصد درست ہے؛ اور اس کی جامعیت کی بڑی وجہ وہی ہے جس کی طرف امام نووی نے اشارہ ہے کہ حضور – ﷺ – کے دور میں یہی باطل مذاہب اور ان کے بنیادی عقائد یہی تھے جن کا ذکر حدیث شریف ہے، انھیں کا تفصیلی ذکر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی – رحمة الله عليه – نے "الفوز الکبیر فی اصول التفسير” میں کیا ہے؛ آپ لکھتے ہیں : نزول قرآن یعنی حضور – ﷺ – کے ظاہری دور میں چار گمراہ فرقوں کا زور و شور تھا اسی وجہ سے قرآن کریم میں انھیں چار گمراہ فرقوں کے باطل عقائد کا ذکر کیا گیا اور ان گمراہ فرقوں کا ذکر کے دلائل برہانی یا خطابی سے ان کا ازالہ فرمایا – وہ چار فرقے اور ان کی چند گمراہیاں یہ ہیں : ❶ ــــ مشرکین عرب مختلف صورتوں میں شرک کرتے تھے، آخرت جنت و دوزخ کے منکر تھے – ❷ ـــ یہود تحریف احکامات الہیہ نیز پیغمبر اعظم – ﷺ – کی نبوت و رسالت کے منکر – ❸ ــــ نصاریٰ "اقانیم ثلٰثه” کے معتقد یعنی ان کے عقیدے کے مطابق اللہ رب العزت کے تین اجزاء ہیں، جن میں ایک جز حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو خدا کے بیٹے کی شکل میں ہیں – ❹ ــــ منافقین جو دل سے اللہ اور اس کے رسول کو مانتے ہی نہیں – (مخلصا و ملتقطا الفوز الکبیر فی اصول التفسير مترجم، ص ٢٧ تا ٤٠، مطبوعہ مجلس برکات الجامعتہ الاشرفیہ مبارک پور) اب ان تفصیلات کے بعد پھر سے ایک بار حدیث شریف پر نظر ڈالیں کہ حضور – ﷺ – نے کتنے پیارے اور دلنشیں انداز میں تدریجا چاروں باطل فرق اور ملل کا رد کیا ہے –
❶ ــــ رد مشرکین : اولا حصہ "أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ” میں مشرکین کے ہر قسم کے شرک سے پاک اور منزہ رب یعنی صرف اللہ رب العزت پر ایمان لانے والے کو ناجی قرار دیا اور آخرت بعث بعد موت کا انکار کرنے والوں کو بتایا کہ جہنم ان کا ٹھکانہ ہے اور ایمان والوں کا مسکن جنت ہوگا –
❷ ـــ رد یہود : دوسرے حصے "وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،” میں حضور – ﷺ – نے یہودیوں کی تمام تر تحریفات سے بچنے والے اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ حضور – ﷺ – کی نبوت کو ماننے والے کو جنتی قرار دیا ہے –
❸ ــــ رد نصاریٰ : حدیث کے تیسرے حصے ” وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ،” میں حضور – ﷺ – نے نصرانیت کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا اور ان کے تمام تر شکوک و شبہات کا اسی ایک جملے میں جواب دے دیا کہ پہلی بات عیسی علیہ السلام مخلوق، بشر اور اللہ کے بندے ہیں، ہاں خاص بندے اور رسول ہیں –
اللہ کا کلمہ اور روح ہونے کا مطلب :
کلمتہ اللہ اور روح اللہ کہنے کی مختصر وضاحت شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی نے یوں فرمائی ہے :
إشارة إلى أنه حجة الله على عباده أبدعه من غير أب وأنطقه في غير أوانه، وأحيا الموتى على يده.
وأما تسميته بالروح فلما كان أقدره عليه من إحياء الموتى. وقيل: لكونه ذا روح وجد من غير جزء من ذي روح. (فتح الباری بشرح صحيح البخاری، ج٨، ص٦١، مطبوعہ دار طیبہ)
ترجمہ : (عیسی علیہ السلام کو "کلمتہ اللہ” کہنے میں) اس بات طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے حجت بن کر آئے کہ اس نے انھیں باپ کے بغیر پیدا کیا اور خلاف عادت وقت (بچپن) انھوں نے کی بات کی اور مردہ کو اپنے ہاتھوں سے زندہ کیا (گویا حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کی وحدانیت اور اس قدرت پر بولتا ثبوت اور حجت تھے اسی لیے آپ کو "کلمتہ اللہ” کہا گیا) ۔
اور ان کو روح اللہ کہنے کی وجہ یہ ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے، اور ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ خلاف دستور بغیر کسی ذی روح کے پیدا ہوئے اسی لیے آپ علیہ السلام کو "روح اللہ” کہا جاتا ہے –
امام نووی کی مختصر اور جامع وضاحت بھی بڑی آسان اور عام فہم ہے اسے بھی دیکھ لیا جائے؛ آپ تحریر فرماتے ہیں : وسمى عيسى عليه السلام كلمة لأنه كان بكلمة ” كن ” فحسب من غير أب بخلاف غيره من بني آدم . قال الهروي : سمي كلمة لأنه كان عن الكلمة فسمي بها . كما يقال للمطر : رحمة . قال الهروي : وقوله تعالى : { وروح منه } أي : رحمة . قال : وقال ابن عرفة : أي ليس من أب إنما نفخ في أمه الروح ، وقال غيره : وروح منه ، أي مخلوقة من عنده وعلى هذا يكون إضافتها إليه إضافة تشريف كناقة الله ، وبيت الله – (شرح مسلم بشرح مسلم، ج١، ص٢٢٧، مطبوعہ المطبعة المصرية بالأزهر) اختصار کے پیش نظر ترجمہ کو رہنے دیتے ہیں – حاصل کلام یہ ہے کہ_ کلمتہ اللہ یا روح اللہ کہنے سے کسی طرح کہیں سے اللہ کا جز یا اس کا شریک ہونے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا بلکہ اس میں اشارہ ہے اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات کی جانب اور بس –
❹ ــــ رد منافقین : پوری حدیث ہی منافقین کی تردید میں ہے کہ ان تمام باتوں پر دل و زبان سے تصدیق و اقرار کرنے والے ہی کے لیے نجات ہے ورنہ نقلی و جعلی اور محض دکھاوے والی گواہی سے کوئی فائدہ نہیں –
الغرض……. اس ایک حدیث میں تمام باطل مذاہب و ملل کی الگ الگ تفصیل کے ساتھ تردید ہو گئی اور عقائد حقہ کا استحقاق ہو گیا –