مذہبی مضامین

تو بھی آدمی میں بھی آدمی تو یہ نفرتوں کی ہے بات کیوں

نہ تیرا خدا کوئی اور ہے، نہ میرا خدا کوئی اور ہے

ازقلم: محمد دلشاد قاسمی

پوری دنیا ظہورِاسلام سے قبل سماجی سطح پر مختلف ناہمواریوں کا شکار تھی۔ یہود خود کو اللہ کی اولاد اور اشرفُ الناس سمجھتے تھے؛ جب کہ دوسروں کو پیدائشی ذلیل اور حقیر سمجھتے تھے۔ ان کی مذہبی کتاب ’تلمود‘ کے مطابق یہودی روئے زمین کی سب سے بہتر مخلوق تھے اور دیگر لوگ کسی صورت میں ان کے برابر نہیں ہوسکتے تھے۔ اس وقت کی سپر پاور طاقت رومن امپائر نے سماج کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا: (۱) امراء جنھیں بغاوت کے علاوہ کسی جرم میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ (۲) متوسط طبقہ جسے غیر معمولی جرم میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ (۳) نچلا طبقہ جس کے افراد کو معمولی جرائم میں قتل کردیا جاتا تھا، زندہ آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔
2) ایران والے اپنی قومیت کو عظمت و تقدیس کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا تصور تھا کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل پر انھیں برتری حاصل ہے۔ یہ اپنے گرد و پیش کی قوموں کو بڑی حقارت و ذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے لیے ایسے نام تجویز کررکھے تھے، جس میں توہین و تمسخر کا پہلو پایا جاتا تھا۔
ہندوستان میں بھی طبقہ واری امتیاز عروج پر تھا۔ ہندو سماج نے باضابطہ ’منوشاستر ‘، جیسا قانون مرتب کر رکھا تھا ۔ منو شاستر کے مطابق برہمن ، برہما (خدا ) کے سر سے پیدا ہوے تھے؛ اس لیے مذہبی پیشوائی اور رہبری ان کا فرض منصبی تھا۔ پھر چھتریوں کا درجہ تھا جو برہما کے سینے سے پیدا ہوے اور اُن کے ذمہ لڑائی اور ملک کے دفاع کا کام سپرد ہوا۔ تیسرے نمبر پر ویش طبقہ تھا اس کا کام پیشہ زراعت و تجارت تھا اور یہ برہما کے کمر سے پیدا ہوے تھے۔ اور سب سے ذلیل شودر تھے جو برہما کے پاؤں سے پیدا ہوئے تھے اور جن کے ذمہ ان تینوں قوموں کی خدمت کا کام سپرد ہو ا تھا۔

خود عرب میں قبائلی تعصب اور جتھ بندی بڑی سخت تھی۔ اس عصبیت کی وجہ جاہلی مزاج تھا۔ بعض خاندان دوسرے خاندانوں کے ساتھ رسومات میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے۔ مناسک حج میں قریش ،، عام حجاج سے الگ تھلگ رہتے۔ ایک طبقہ پیدائشی آقاؤں کا تھا ، ایک طبقہ کم حیثیت لوگوں کا تھا ۔
عالمی تاریکی کے اس مہیب ماحول میں مکہ کی سنگلاخ وادیوں سے یہ آواز سنائی دی کہ تمام انسان اصل خلقت و پیدائش کے اعتبار سے برابر ہیں۔ اعلان ہوا کہ سارے انسان اللہ کی مخلوق ہیں، سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، کوئی پیدائشی حقیر اور پیدائشی شریف نہیں: یَا اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَآءً․

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلادیں۔ (سورة النساء ۱:۴)
دوسری آیت کریمہ میں بیان فرمایا
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں بنائی ہیں تاکہ تمہاری آپس میں پہچان ہوسکے ، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی اور پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔ ۔ “(سورة الحجرات ۱۳:۴۹)
اس آیت کریمہ سے دو باتیں صاف طور پر واضح ہو جاتی ہیں کہ خاندان نسل اور ذات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان امتیاز نہیں کیا جا سکتا ۔
دوسری بات یہ کہ نسب تو تمام انسانوں کا ایک ہی ہے البتہ ان سے خاندان اور قبائل وجود میں آئے مگر ان پر عزت اور شرافت کا دارومدار نہیں عزت اور شرافت کا مدار تقوی اور پرہیزگاری پر ہے ۔
اسلام نے ساری انسانیت کی عزت افزائی کا بلا تفریق نسل و نسب ،، انسان کو ’تکریم ‘ کاتاج عطا کیا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کی موجودگی میں اعلان فرمایا تھا: لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے باپ بھی ایک ہیں۔ سن لو! کسی عربی کو کسی غیر عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی غیر عربی کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ اگر فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقوی اور اللہ کا خوف ہے، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور افضل وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث ۴۹۲۱
آج جس جمہوریت اور مساوات کا دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے وہ سراسر اسی ماحول کی دین ہے، جسے اسلام نے دنیا میں پیدا کیا۔ مغربی ممالک کے یہاں طبقاتی اور نسلی تفریق بیسویں صدی تک موجودتھی ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے نمبر ایک خدا کے فرمابردار اور حق کے حامی ۔ نمبر دو ،، شیطان کے پیروکار اور باطل کے حامی ہمیں شیطان کے حامیوں زمین میں فسق و فجور پھیلانے والوں سے نفرت اور ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا ہے خواہ وہ کسی بھی نسل ذات اور وطن سے تعلق رکھتے ہو اللہ کے یہاں یہ تقسیم نسلی بنیادوں پر نہیں بلکہ عقائد اعمال اور خدا سے وفاداری اور بغاوت کی بنیاد پر ہے قوم پرستی کے حاملین قوم پرستی کے جذبات سے مغلوب اور نشہ قومیت سے سرشار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان میں غلط اعتماد فخر اور تکبر پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اتحاد ختم ہوتا ہے اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور پھر اس کا نقصان پوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ایک سوال چھوڑ کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں جیسا کہ سماج میں میں یہ اونچ نیچ کا تصور ہے اگر یہ صحیح ہے تو پھر اسلام کا تصور مساوات( برابری) کہاں گیا ؟

ہر دم آپس کا جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ایک خدا کے سب بندے ہیں ایک آدم کی سب اولاد

تیرا میرا خون کا رشتہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے