ازقلم: محمد عارف رضا نعيمی ارشدی مرادآبادی
بانی: ہمدرد مسلم نعیمی کمیٹی، مقیم حال کرناٹک
8191927658
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
آج کے اس پرفتن دور میں ہر معاشرے میں ان گنت رسم ورواج کا چلن ہے کہیں افراط ہے تو کہیں تفریط، کہیں منصفانہ طریقے تو کہیں متوسط تو کہیں انتہائی ظالمانہ جاہلانہ رسومات ہیں –
رسوم ورواج بنیادی طور پر انسانوں کے مرتب کردہ اور خود ساختہ اصول وقوانین ہیں جس نے بر صغیر ہند وپاک کو اپنی زد میں لے رکھا ہے بعض جگہ تو وہی زمانہ جاھلیت کی رسومات پنپ رہی ہیں اور بعض وہی معاشرتی، سماجی، گھریلو اور علاقائی پابندیاں اور ایسی ایسی قبیح تر رسومات صدیوں سے چلی آرہی ہیں اور حیرت بالائے حیرت تو یہ ہے کہ آج کے اس ٹکنا لوجی اور ترقی یافتہ دور میں بھی انہیں فالو کیا جارہا ہے آج بھی ھند وپاک کے شہر کے معاشرہ میں عموماً اور دیہاتی معاشرہ میں خصوصیت کے ساتھ رائج ہیں – بنیادی حیثیت سے دیکھئے جب گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو ہر طرف شادمانی وفرحت کا سماں ہوتا ہے لیکن جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو رنج وغم کیا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ اگر گھر میں لڑکیاں ہی ہوتی رہی تو اس عورت کا گھر میں رہنا دوبھر کردیا جاتا ہے نوبت طلاق تک کی پہونچ جاتی ہے نہ جانے اس بنا پر کتنی عورتوں کی زندگی تاراج ہوگئی وہ خود کشی وآتما ہتیا کرنے پر مجبور ہو گئیں یہ سب کفار ومشرکین کا طریقہ اور زمانہ جاہلیت کی بدترین رسم ہے –
ارشاد باری تعالیٰ عزوجل ہے : ٫٫ واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھه مسودا وهو كظيم،، بلکہ حق تو یہی ہونا چاہئے تھا کہ جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو وہ رب کے فضل سے بہت خوش نصیب ہے کیونکہ تاجدار کائنات (صلیﷲ علیہ وسلم) کے خانئہ اقدس میں بیٹیاں جلوہ فگن ہوئیں گویا کہ کریم کا فضل شامل حال ہوا سنت نبوی کی بہار گھر میں آگئی ضرورت اس امر کی ہے جہاں تک ہو سکے بیٹی کی اہمیت سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور اس بری رسم کا معاشرہ سے خاتمہ کیا جائے، پھر جب ایک غریب گھر کی لڑکی پروان چڑھ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو ایک نادار اور غریب شخص جو بمشکل محنت مزدوری سے اپنے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھا پاتا ہے جس کے یہاں آٹھ دس بچے ہوتے ہیں – سوچئے وہ شخص اپنی ایک بیٹی کی شادی کے لئے لاکھوں کے زیوارات، لاکھوں کے فرنیچر، ڈھیروں ملبوسات، گھر کی تعمیر، شاندار برات وشادی کا پر تکلف کھانے سے لے کر دولہا کے پورے خاندان، رشتہ داروں اور عزیز واقارب پر مال لٹانا کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا یہ کسی نا خواندہ مزدور، معمولی یا چھوٹا دوکاندار وزمیندار کے بس کی بات ہے ؟ کہ ان تمام اخراجات کو پورے کرسکے جس کی بنا پر غریب شخص کی 35/30 سال کی بیٹیاں ہوگئیں لیکن آج کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے، لیکن اگر آپ کو بیٹی کی شادی کرنی ہے تو بھلے ہی آپ جیو یا مرو آپ کو تو یہ رسومات کو پورا کرنا ہی ہے باپ دادا کی زمین بیچو، چاہے سود پر پیسہ لاؤ چاہے کچھ کرو لیکن آپ کو بیٹی کی شادی کے لئے لاکھوں روپے اڑانے ہی ہوں گے – جہاں، سے بھی چاہے جس طرح سے بھی رقم حاصل کرو، یہ آپ کا مسئلہ ہے معاشرے کو اس سے کوئی غرض اور سروکار نہیں رہتا ہے –
اب ذرا دین اسلام کی طرف چلتے ہیں جو ہمارا انقلابی وآفاقی مذہب ہے، جسمیں دیکھیں تو اس میں قطعاً ان قبیح اور غیر ضروری رسومات کی گنجائش ہی نہیں، بلکہ اسلام نے سراسر شادیوں کو ہلکا کرنے کا حکم نافز کیا ہے اور ضرورت سے زیادہ جہیز کو فضول خرچی کرار دیا ہے – ارشاد باری تعالیٰ ہے : ٫٫ ولا تبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین وکان الشیطن لربه كفورا،، ترجمہ: اور فضول نہ اڑا بیشک فضول اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے – (سورہ بنی اسرائیل آیت 26 تا 27) –
نیز جہیز کی مانگ کی اسلام نے ہر زاویہ سے مزمت کی ہے اور شادی سے لے کر عام سماجی معاملات میں انتہائی سادگی، کفایت شعاری اور آسانی کی ہدایت کی ہے – مگر افسوس صد افسوس اس مذہب اسلام کو ماننے والے عوام سے لیکر خواص تک اور عالم سے لیکر جاھل تک جہیز کی مانگ کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے بعض تو اتنے نڈر ہیں کہ معاشرے کے ہر معاملے میں اسلامی احکام وہدایت کو پس پشت ڈال کر ظالمانہ وحشانہ رسومات کو فوقیت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اسی بنا پر آج معاشرہ بے راہ روی، بے نفیساتی امراض اور احساس کمتری کا لوگ شکار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں – کیونکہ شادی بنیادی انسانی ضرورت ہے جہیز کی اس لعنت نے آج ھند وپاک کے ہزارہا ہزار غریب جوان لڑکے بے راہ روی کا شکار اور لڑکیاں گھر بیٹھی اپنی پسماندگی کا ماتم کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں – معاشرہ اخلاقی پستی اور زوال کا شکار ہو رہا ہے – لوگ بدکاری اور زنا وگناہ کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور اپنی زندگیوں سے مایوس ہوتے جارہے ہیں –
لہذا میری تمام دولت دار علمبردار نمبر دار زمیں دار حضرات سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بہت زیادہ جہیز نہ دیں سجا سجا کر دکھا دکھا کر جہیز دینا خدا کی قسم بالکل مناسب نہیں ہے ناموری کے لالچ میں ہرگز اپنے گھر کو آگ نہ لگائیں – یاد رکھئے نام عزت تو ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلیﷲ علیہ وسلم) کی پیروی ہی میں ہے – نیز مخیّر حضرات اور دولتمند حضرات سے مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ اپنے زکوٰة وخيرات كو صحيح مصرف میں صرف کریں اور معاشرے سے غربت کا خاتمہ کریں اور اپنا وجٹ فقیر وغربت کے خاتمہ پر لگا کر مولی کی رضا کے طالب ہوں –
اور اس جہیز جیسی رسم کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہوں، عوام وخواص سب ملکر اس کے خلاف شعور بیدار کریں، شادی کو آسان ترین بنائیں اور جہیز کی لعنت سے معاشرے کو نجات دلانے کی سعئی پیہم کرتے رہیں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس کا بھیانک انجام ہماری تاک میں ہے – کیونکہ اس بنا پر معاشرہ میں برائیاں پنپتی ہیں اور برائی جس معاشرے میں حد سے بڑھ جائے اس پر بالاخر عذاب الہٰی نازل ہونے کا خدشہ ہے – اس لیے اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو عذاب سے بچائیں –
میرے اسلامی بھائیوں اور بزرگوں ! حال ہی میں اس جہیز جیسی بدترین رسم کی وجہ سے گجرات کی رہنے والی ایک خاتون جسکا نام عائشہ ہے وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئی اس سے پہلے اور بھی ایسے کتنے حادثے ہو چکے ہیں – اگر ابھی بھی معاشرے سے اس جہیز جیسی بدترین رسم کا خاتمہ نہ ہوا تو یاد رکھنا اور بھی نہ جانے کتنی خواتین خود کشی کرنے پر مجبور ہو جائے گیں –
یہ مختصر مضمون اس بات کا متحمل نہیں ہے کہ تمام رسومات کا اس میں احاطہ کیا جا سکے لہذا اسی پر اکتفا کرتا ہوں – معاشرے میں پھیلی ہوئی رسومات کی تفصیل اگر درکار ہے کہ کیسے معاشرے سے بری رسومات کا خاتمہ ہو تو حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی رحمتہﷲ تعالیٰ علیہ کی بہترین کتاب اسلامی زندگی کا مطالعہ کریں –
ﷲ ہمارے معاشرے سے قبیح تر رسوم کا خاتمہ فرمائے ﷲ تعالیٰ تمام عالم اسلام کا حامی وناصر ہے تمام مسلمانوں کو کرونا وائرس جیسی بیماری وتمام بیماریوں سے محفوظ ومعمون فرمائے. آمین بجاہ النبی الآمین صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم