ازقلم: محمد دلشاد قاسمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں تشریف لائے یہ دنیا ہر طرح کی برائیوں کی آماجگاہ تھی کوئی برائی ایسی نہ تھی جو عرب کے سماج میں نہ پائی جاتی ہوں لوگوں کی نہ جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ عزت و آبرو ۔ بےحیائی کا تو یہ حال تھا کہ کعبہ کا طواف بھی وہ بے لباس ہو کر کرتے تھے ۔ ظلم و ستم کی بھی کوئی حد نہ تھی اور سماج کے تمام فیصلے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے قانون کے تحت ہوا کرتے تھے ۔ مذہبی پہلو سے دیکھیے تو معاشرہ بدترین شرک میں مبتلا تھا ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور جب 622 میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی ان حالات میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ پہلی وحی کس تعلق سے نازل ہوئی ہوگی بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسلام کی پہلی وحی عقیدے کے پہلو سے اور توحید باری کو ثابت کرنے اور شرک کے رد میں میں نازل ہوئی ہوگی ۔ یا انسانی نقطہ نظر سے ایسی آیت جس میں ظلم و ستم سے منع کیا گیا ہو اور انسانی اخوت اور بھائی چارگی اور ہمدردی کی طرف دعوت دی گئی ہو ۔ یا سماجی اصلاح سے متعلق کوئی آیت آئی ہوگی جس میں بے شرمی اور بے حیائی سے روکا گیا ہوگا لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی اس میں ان میں سے کسی بھی بات کا تذکرہ نہیں تھا۔ اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا۔
اقرا باسم ربك الذي خلق ۔ خلق الانسان من علق۔ اقرا وربك الاكرم۔ الذي علم بالقلم ۔علم الانسان ما لم يعلم ۔
اللہ تبارک وتعالی نے پہلی وحی تعلیم کے حوالے سے نازل فرمائی کیونکہ علم کی مثال روشنی کی سی ہے۔ عقیدہ ، عمل ، معاشرت ، اور اخلاق کی تمام برائیاں جہالت کا نتیجہ ہوتی ہے جہالت کی تاریکی ہی میں یہ تمام مفاسد پرورش پاتے ہیں اس لئے تعلیم کی روشنی جتنی پھیلے گی یہ بگاڑ بھی خودبخود دور ہوتا چلا جائے گا تعلیم کے بغیر سماج کی برائیوں کو دور کرنے کی مثال جڑوں کے بجائے ٹہنیوں اور پتوں پر پانی دینے کی سی ہے اس سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن کسی دیرپا تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کے لئے تحصیل علم فرض قرار دیا ہے ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت پڑنے پر جبر سے بھی کام لیا جا سکتا ہے ۔ابن ماجہ۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے ۔ (باب الغتباط فی العلم والحکمہ)۔
اسلام نے علم کو دینی علوم اور دنیاوی علوم میں تقسیم نہیں کیا ۔ علم کی دو ہی قسمیں ہیں علم نافع، اور علم غیر نافع۔ بدقسمتی سے موجودہ وقت میں علم دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے دینی علوم اور عصری علوم ۔ جس طرح دینی علوم کا حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے فرض ہے اسی طرح دنیاوی علوم کا حاصل کرنا بھی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کے ذریعے وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کر سکے اور ایک باعزت اور خود دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لئے ممکن ہو ۔
یقین کرتے جو اپنے علماء کی رہبری پر ہم
ترقی کے نہ جانے کتنے زینے چڑھ گئے ہوتے
ہم اپنے روز کے کھانے سے ایک لقمہ بھی اگر بچا لیتے
تو ادا سنت بھی ہوتی اور بچے پڑھ گئے ہوتے