الکتابة هي کنز العلم
الکتابة هي کنز العلم کا مفہوم یہ ہے کہ تحریر یا لکھائی علم کا خزانہ ہے۔ یہ قول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ علم کو حاصل کرنے اور اسے محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ تحریر میں ہے۔ تحریر انسان کا وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے اس نے ہزاروں سالوں سے اپنے خیالات، تجربات، نظریات اور دریافتوں کو نسل در نسل منتقل کیا ہے۔ تحریر نہ صرف ایک علم کا ذخیرہ بناتی ہے بلکہ یہ انسان کی فکری، ثقافتی اور علمی ترقی کے لیے ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔
تحریر کا علم کے ساتھ تعلق
تحریر اور علم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ جب بھی انسان نے کسی نئی دریافت یا تحقیق کو کیا، وہ اسے تحریر کی صورت میں محفوظ کرتا ہے تاکہ دوسرا شخص بھی اس علم سے فائدہ اٹھا سکے۔ قدیم دور میں جب انسانی معاشرتیں ابھرتی تھیں، تب تحریر نے ہی علم کی منتقلی کو ممکن بنایا۔ کتابیں، نسخے، اور قلم و کاغذ وہ وسائل تھے جن کے ذریعے انسان نے اپنی معلومات کو محفوظ کیا اور آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔
الکتابة ہے کنز العلم کا مطلب ہے کہ علم کا خزانہ تحریر کے اندر محفوظ ہوتا ہے، اور اس خزانے سے انسان جتنا استفادہ کرے گا، اتنا ہی اس کی فکری سطح بلند ہوگی۔ اس خزانے کا دروازہ کھولنا انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے جب وہ تحریر کے ذریعے دنیا کے مختلف شعبوں میں ہونے والی نئی معلومات اور تحقیق کو سمجھتا ہے۔
تحریر: علم کا ذخیرہ
تحریر کو اگر علم کا خزانہ کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ تحریر میں محفوظ علم کبھی بھی ضائع نہیں ہوتا، کیونکہ کتابیں اور دستاویزات وقت کی گرد میں دفن ہو کر بھی زندہ رہتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب یا تحریر ہمیشہ اپنے پڑھنے والوں کو علم کی روشنی فراہم کرتی ہے اور اس کا اثر آنے والی نسلوں پر بھی ہوتا ہے۔
آج کے دور میں ہم جو کچھ بھی سیکھتے ہیں، وہ زیادہ تر تحریری مواد سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی کتابیں ہوں، تحقیقاتی مضامین ہوں یا تاریخی دستاویزات، سب کا مقصد علم کو تحریر کی صورت میں محفوظ کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف ماضی کے علم سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ نئے آئیڈیاز، تحقیق اور دریافتوں سے بھی روشناس ہوتے ہیں۔
تحریر کا اثر انسان کی زندگی پر
تحریر کا علم پر اثر اتنا گہرا ہے کہ اس کا انسانی زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ جب انسان کسی تحریر کو پڑھتا ہے، تو وہ نہ صرف معلومات حاصل کرتا ہے بلکہ وہ اس تحریر سے اپنی سوچ میں تبدیلی لاتا ہے۔ تحریر انسان کو نیا زاویہ دکھاتی ہے، اسے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کی نئی راہ دکھاتی ہے، اور اس کی سوچ کو وسیع کرتی ہے۔
تحریر انسان کو اپنے تجربات، نظریات اور خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جب انسان اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے علم کو دوسروں تک پہنچاتا ہے، تو اس سے نہ صرف اس کی ذاتی ترقی ہوتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں علم کا ایک نیا دور آتا ہے۔ تحریر کی طاقت یہ ہے کہ وہ وقت اور جگہ کی حدود سے آزاد ہوتی ہے اور ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
تحریر کی اہمیت کی دلیل
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں نے جتنے بھی بڑے کارنامے انجام دیے، ان کا اصل ذریعہ تحریر ہی تھا۔ قدیم فلسفیوں، سائنسدانوں، اور دانشوروں نے اپنی تحقیقات اور تجربات تحریر میں ڈالے اور ان کے ذریعے آنے والی نسلوں کو علم کی روشنی فراہم کی۔ مثلاً، ارسطو، افلاطون، ابن سینا، اور فارابی جیسے عظیم مفکرین نے اپنی تحریروں کے ذریعے علم کے نئے دروازے کھولے۔ ان کی تحریریں آج بھی ہمیں سچائی، حکمت، اور علم کی تلاش میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
آج کے دور میں بھی تحریر کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ چاہے وہ سائنس کی کتابیں ہوں یا ادب کی تحریریں، تمام معلومات کی بنیاد تحریر پر ہی ہے۔ ایک شخص جو تحریری مواد سے جتنا زیادہ استفادہ کرتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ علم و فہم حاصل کرتا ہے۔
"یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاکْتُبُوهُ”
(سورة البقرة، آیت: 282)
یعنی، اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک قرض دو تو اسے لکھ لو۔
وعن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «قيدوا العلم بالكتاب»،
انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «علم کو کتاب کے ذریعے قید کرو۔»
يقول الإمام الشافعي: العلم صيد والكتابة قيده، قيد صيودك بالحبال الواثقة "علم شکار ہے اور تحریر اس کی قید ہے، اپنے شکار کو مضبوط رسیوں سے قید کرو۔”
ورجل شكا إلى النبي صلى الله عليه وسلم النسيان فقال له: استعمل يدك حتى ترجع إذا نسيت إلى ما كتبت.
ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھولنے کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے ہاتھ کا استعمال کرو، تاکہ جب تم بھولو تو اس لکھے ہوئے کو دوبارہ دیکھ سکو جو تم نے لکھا تھا۔”
قال بعض العلماء :من لم يكن الدفتر في جيبه لم تثبت الحكمة في قلبه
بعض علماء نےکہا ہے:
"جو شخص اپنے جیب میں دفتر (کتاب) نہ رکھے، اس کے دل میں حکمت نہیں ٹک سکتی۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ علم اور حکمت کو ذہن و دل میں محفوظ کرنے کے لیے اسے لکھنا ضروری ہے۔ جو شخص علم کو صرف سنے یا یاد کرے، لیکن اسے لکھنے کی عادت نہ ہو، اس کے دل میں حکمت کا استقرار کم ہوتا ہے۔ علم کو کتابت کے ذریعے یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا حکمت کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔
قال أحد الأئمة لطلابه : لا تقرمط خطك أي لا تكتب بخط صغير و خط سيء إن عشت تندم و إن مت تشتم.
کہا ہے ایک امام نے اپنے طلباء سے:
"لا تقرمط خطك” یعنی اپنا لکھا چھوٹا اور برا نہ لکھو، کیونکہ اگر تم جیو گے تو پچھتاؤ گے، اور اگر تم مرو گے تو لوگوں کی جانب سے تمہاری تحریر پر برائی کی جائے گی۔
سعيد بن جبير يقول : ربما أتيت ابن عباس فكتبت في صحيفتي حتى أملأها ، كتبت في نعلي حتى أملأها ، و كتبت في كفي
سعید بن جبیر کہتے ہیں:
ترجمہ: "میں کبھی ابن عباس کے پاس جاتا اور اپنی صحیفہ (کتاب) میں اتنا لکھتا کہ وہ بھر جاتی، کبھی اپنے جوتے (نعل) میں لکھتا تاکہ وہ بھر جائیں، اور کبھی اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر لکھتا۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ سعید بن جبیر علم کو محفوظ کرنے کے لیے کسی بھی ممکنہ جگہ پر لکھنے کی کوشش کرتے تھے، چاہے وہ کاغذ ہو، جوتا ہو یا ہاتھ کی ہتھیلی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علم کو جمع کرنے اور محفوظ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے، اور یہ کہ تحریر کا عمل علم کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے
وقال عمار بن رجاء: "سمعت عبيد بن يعيش يقول: أقمت ثلاثين سنة ما أكلت بيدي بالليل، كانت أختي تلقمني وأنا أكتب.”
ترجمہ: عمار بن رجاء کہتے ہیں: "میں نے عبید بن یعیش سے سنا، وہ کہتے تھے: ‘میں نے تیس سال تک رات کے وقت اپنی ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا، میری بہن مجھے کھانا دیتی تھی جب کہ میں لکھ رہا ہوتا تھا۔”
یہ قول اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ علم کی تلاش اور تحریر کا اتنا عزم تھا کہ عبید بن یعیش نے اپنے وقت کو اتنی شدت سے علم کے لیے وقف کر رکھا تھا کہ رات کے کھانے میں بھی وہ اپنی تحریر کو ترک نہیں کرتے تھے۔ اس کی بہن ان کی مدد کرتی اور وہ بغیر کسی توقف کے علم حاصل کرنے اور لکھنے میں مصروف رہتے۔ یہ ایک مثال ہے کہ علم کی طلب میں انسان کس حد تک محنت اور لگن دکھا سکتا ہے۔
قال الخليل بن أحمد: "ما سمعتُ شيئًا إلا كتبته، ولا كتبتُ شيئًا إلا حفظته، ولا حفظتُ شيئًا إلا انتفعتُ به.”
ترجمہ: حضرت الخلیل بن احمد نے فرمایا: "میں نے جو کچھ بھی سنا، وہ لکھا، اور جو کچھ بھی لکھا، وہ حفظ کیا، اور جو کچھ بھی حفظ کیا، اس سے فائدہ اٹھایا۔”
اتنی ساری دلائل سے یہ آپ کو معلوم چل گیا ہوگا کہ تحریر کی کتنی اہمیت ہے۔ اور اس کی کتنی ضرورت ہے ہماری روزمرہ کی زندگی میں.
نتیجہ
الکتابہ ہے کنز العلم کا مفہوم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تحریر علم کا خزانہ ہے اور یہ خزانہ ہر فرد کے لیے دستیاب ہے۔ جو شخص تحریر سے فائدہ اٹھاتا ہے، وہ علم کے اس بے شمار خزانے سے استفادہ کرتا ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ تحریر نہ صرف علم کو محفوظ کرتی ہے بلکہ اسے وقت اور جگہ کی حدود سے آزاد کر کے ہر انسان تک پہنچاتی ہے۔ اس طرح تحریر کی اہمیت اور اس کا علم کے خزانے کے طور پر کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور انسانیت کے لیے روشنی فراہم کرتا ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج کل ہم لکھنے سے بہت گریز کرتے ہیں، اور ہماری یادداشت بھی اتنی تیز نہیں کہ ایک بار دیکھیں اور یاد ہو جائے۔ وہ تو پچھلےزمانے کے لوگ تھے جنہیں ہزاروں حدیثیں اور لاکھوں باتیں یاد رہتی تھیں۔ میں اپنا تجربہ ہی بیان کرتا ہوں کہ استاد کلاس میں لکھنے کو کہتے ہیں، لیکن ہم نہیں لکھتے، یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے آبا اجداد کے راستے سے بھٹک رہے ہیں۔
اور وہ تحریر کا ہی فن ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس یہ بڑی بڑی کتابیں آئیں، حتیٰ کہ قرآن بھی اسی کے ذریعے آیا۔ قرآن سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟ آپ حدیث لے لیجیے، فقہ کی کتابیں دیکھ لیجیے، سب لکھے ہوئے ہیں، آئیں ہیں۔ آخر وہ بڑے بڑے علماء تھے، تو انہوں نے ایسا کیا، تو ہم جیسے ناتواں کو کرنے میں کس طرح کی مشکلات اور تکالیف آ سکتی ہیں.
ازقلم: ارسلان محمد
دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی