تحریر: نازش مدنی مرادآبادی
ماضی میں انسانی زندگی کے لحاظ سے گاؤں کا کتنا اہم کردار رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عرب چھوٹے چھوٹے بچوں کو پرورش کے لیے گاؤں بھیج دیا کرتے تھے جہاں ان کی پرورش سے لے کر تہذیب و ثقافت،فصاحت و بلاغت اور ان کی اپنی زبان کو بولنے کے پیچ وخم سکھانے تک کا اہتمام کیا جاتا اور اس ماحول میں پل بڑھ کر وہ غیر عرب کو عجمی(گونگا) کہتے تھے اور یوں ان کی فصاحت و بلاغت کے چار دانگ عالم میں چرچے ہو جاتے تھے۔
کچھ سال ۔پہلے تک عام طور پر گاؤں میں شور غوغے اور گرد و غبار سے پاک بالکل پرسکون ماحول ہوتا تھا، اکثر تازہ پھل سبزیاں خالص دودھ وغیرہ بھی گاؤں میں بآسانی دستیاب ہوجاتے،کنویں یا ہینڈ پنپ کا تازہ پانی، ہرے بھرے کھیت، درختوں کے بیچ سے نکلتے ہوئے راستے خوب صورتی کا الگ ہی منظر پیش کرتے دکھائی دیتے، بڑے بوڑھوں کی چوکھڑیاں پھر ان میں حقے کی گڑگڑاہٹ سونے پہ سہاگے کی حیثیت رکھتے ہوے ساری Tensions کا خاتمہ کرکے الگ ہی سماں باندھ دیتی تھی۔ بچوں کے آس پاس،چھوئی چُھوَیّا،لوہا لکّڑ،ایک ایک گولٹا، گلی ڈنڈا، گیند تڑی،لنگڑی چوہیا اور سولہ پرچی ڈھپ اور بچیوں کے پائیں پِٹہ،کھو،پنچ گِنٹہ اور رسی کود جیسے کھیل بالکل بوریت نہیں ہونے دیتے تھے۔ صبح ہوتے ہی سارے کسان ناشتہ کرکے کھیتوں میں چلے جاتے اور دن بھر کھیتوں میں کام کرتے جبکہ دوپہر کا کھانا بچے کھیت میں لیکر پہنچ جاتے بھر شام کو واپسی ہوتی مغرب کے نماز سے فارغ ہو کر دیر رات تک بیٹھک لگتی اس میں کھیتی،گھریلو اور گاؤں کے دیگر معاملات پر Discussion ہوتی تھی۔
لیکن اب جب بھی گاؤں جانا ہوتا ہے تو پہلے جیسی اخوت و بھائی چارگی،ہمدردی،پیار محبت،بڑے بوڑھوں کی چوکڑیاں اور بچوں کا اجتماعی کھیل کود کا منموہن نظارہ بالکل ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ان تمام کی جگہ اب منافرت و منافقت نے لے لی ہے۔ بیشتر لوگوں کے اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر کہیں دور کسی دوسری جگہ سکونت اختیار کرنے کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر دوسرا شخص کسی کا جانی دشمن بنا ہوا ہے۔
عمدہ دیسی پھل،سبزیاں اور خالص دودھ گاؤں میں بآسانی میسر نہیں بلکہ کوئی مہمان آجاے تو کئی گھروں کا چکر لگانے کے بعد یا پھر پانچ دس روپے والا Milk Powder Pack لا کر مہمان کے لیے چاے کا بند و بست کیا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی عدم دست یابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب گاؤں کی اگائی ہوئی بہترین غذائیں منڈیوں میں بھیج دی جاتی ہیں اور دودھ Milk Forums یا ڈیریوں کو موٹے دام بیچ دیا جاتا ہے کسی نے خوب لکھا ہے: "ایک گاؤں تھا جہاں نہ کوئی سڑک تھی نہ کوئی اسکول،نہ علاج معالجہ کے لیے کوئی ہسپتال،نہ بجلی اور نہ گیس کی سہولیات وغیرہ موجود تھیں۔ مجھے کچھ کچھ ابھی یاد ہے پھر بھی لوگ خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے لوگ کھیتی باڑی کرتے مال مویشی پالتے رات کو کام کاج سے فارغ ہو کر ایک جگہ اکٹھے ہوتے گپ شپ کرتے دن یوں ہی ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ اچانک اس گاؤں کے دن پھر گئے۔ گاؤں میں ترقی ہونا شروع ہوگئی۔،وہاں سڑک بن گئی بجلی آگئی،اسکول وغیرہ بھی بن گئے۔
اب گاؤں بھی وہی تھا لوگ بھی وہی تھے لیکن زندگی ویسی نہیں رہی،ہر گھرانہ ٹینشن کا شکار نظر آنے لگا،بے روزگاری بڑھنے لگی لوگوں کی زندگیوں سے سکون نکلنے لگا، ہر کوئی ان سہولیات کو حاصل کرنے کی غرض سے اندھا دھند نوکریوں کی تلاش میں دوڑنے لگا،ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں پڑ گیا، ہمسائے کو ہمسائے کی کوئی خیر خبر نہیں حتی کہ بھائی بھائی میں دوریاں بڑھ گئیں،رشتے داریاں ٹوٹنے لگیں،شریک دشمن محسوس ہونے لگے، ہر کوئی اپنے بیوی بچوں کے دائرے تک محدود ہو کے رہ گیا۔
جنہوں نے کچھ پرانا دور دیکھا ہے وہ اپنے دل سے پوچھ کے بتائیں کہ کیا ہمارے ساتھ ایسا ہوا اور ہو رہا ہے واقعی گاؤں کی وہ یادیں اب بھی دل لبھا دیتی ہیں ذرا پچھلے دور میں تصور ہی تصور میں جاکر دیکھو وہ کچی سڑکیں وہ ہرے بھرے کھیت کھلیان وہ سایہ فگن درخت وہ بڑے بوڑھوں کی بیٹھکیں وہ بچپن کی شرارتیں واقعی دل دوبارہ اس دور میں واپس جانے کو چاہتا ہے”۔