لمحہ فکریہ از: محمد احمد حسن سعدی امجدی
کرونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک کی معاشی حالت کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں، جس میں ملک کا ہر شہری بے روزگاری اور بیکاری کی مار برداشت کر رہا ہے،لیکن افسوس کہ ان بےروزگاروں کی صفوں میں علماء حضرات کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے، کیونکہ 80 فی صد علماء کا ذریعہ معاش مدارس اور مساجد ہیں اگر ہم مدارس کی بات کریں تو یہ تقریبا ڈیڑھ سالوں سے بند ہیں ،اور ظاہر ہے کہ مدارس کے بند ہونے کی صورت میں تنخواہ کا تصور بھی ممکن نہیں لہذا ملا جلا کر امامت ہی کا سہارا ہے ، نیز مدارس اسلامیہ کے طلبہ بھی گھر بیٹھے بوریت محسوس کرتے کرتے کسی مسجد کی تلاش میں ہیں ،تاکہ کم از کم اسی بہانے تھوڑی دین کی تبلیغ ہوجاۓ گی اور انسان اپنے ذاتی خرچے کے حوالے سے بھی بے فکر ہو جائے گا۔
اس مقصد کو سامنے رکھ کر گزشتہ سال جب لاک ڈاؤن ربیع الاول شریف سے بھی بڑھ گیا تو راقم الحروف نے آن لائن تعلیم کے ساتھ ساتھ امامت کو ترجیح دی اور اس کے حوالے سے لوگوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا، اس دوران چند اچھی خاصی جگہوں سے اطلاع ملی حتی کہ چند اراکین مسجد سے فون پر گفتگو بھی ہوئی لیکن ہر بار معاملہ اس موڑ پر آ کر پیچیدہ ہوگیا کہ آپ شادی شدہ ہیں یا نہیں ؟ بھائی ہمیں امام تو شادی شدہ چاہیے ، بظاہر اس بےتکی سی مگر ایک حد تک معقول شرط کو سننے کے بعد بعد بڑا غصہ آیا لیکن پورے صبر و ضبط کے ساتھ مزید معلومات حاصل کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ اصل میں پچھلی بار جو امام صاحب تھے ان کی عادت ٹھیک نہیں تھی، اسی لیے ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امام شادی شدہ ہی رہے گا۔ انھیں وجوہات کی بنا پر مساجد و مدارس کے ذمہ داران ایسی شرط لگا دیتے ہیں تاکہ اس قوم کی مزید بدنامی نہ ہو اور لوگ روزگار سے بھی جڑے رہیں،
اس تحریر کو پڑھتے وقت آپ کو ذرا غصہ آ رہا ہوگا لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ چند نا عاقبت اندیش نوجوان ائمہ گاؤں دیہات کی جگہوں پہ رہ کر نفس امارہ کے دھوکے میں آکر ایسے افعال انجام دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے سب کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انھیں وجوہات کی بنا پر دیگر نیک طبیعت علما اور ائمہ کے لیے آزمائش کا سبب بن جاتے ہیں، اور ان کے لیے تدریس و امامت کی راہیں مسدود ہوتی نظر آرہی ہیں ۔
اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ نئے امام کے آنے سے پہلے ہی اسے فون پر تنبیہ کردی جاتی ہے حضرت ذرا خیال سے رہیں تو اچھا ہوگا کیونکہ پہلے والے امام صاحب نے ایسا ایسا کیا تھا۔
حاشا للہ ، اس تحریر کا مقصد کسی کی توہین یا کسی ایک کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں بلکہ یہ ان سرپھرے لوگوں کے لیے ہے جو شیطان کے دام فریب میں آکر گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اپنی نازیبہ حرکات و سکنات سے عوام کی بد کلامی اور بعض اوقات لات گھوسے بھی کھاتے ہیں پھر اپنے تو ذلیل وخوار ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں پوری علما قوم کو بدنام کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو اپنے اس گھٹیا عمل سے توبہ کرکے صحیح معنوں میں تبلیغ دین متین کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں دین متین کا سچا خادم بنائے اور عمل خیر کی توفیق عطا فرمائے آمین۔