از:محمدقمرانجم قادری فیضی
چیف ایڈیٹر :ماہنامہ جام میر بلگرام شریف
جن مسلمانوں میں یہ صفت ہوگی وہ بھلا کسی سے شکست پا سکتے ہیں، وقتی طور پر اگر قدم پیچھے لینا پڑے تو الگ بات ہے، وہ اس حال میں ‘انتم کرارون لستم فرارون’ کے مثل ہوتے ہیں، مگر قطعی شکست سے دوچار ہوجانا انہیں نہیں آتا، ان کے لئے تعداد، اسباب و وسائل اور باطل کی جمعیت اولیت نہیں رکھتے؛ بلکہ سب سے اہم ایمانیات ہیں، یہی وہ جذبہ ہے جس نے آج مٹھی بھر غزہ کے لوگوں کو عالمی جارحیت اور وقت کے سپر پاور کی پشت پناہی پر جینے والے اسرائیلی فوج کو بلاشرط پیچھے ہٹنے اور سیز فائر پر مجبور کردیا ہے، دو ہفتے کے قریب خون آشام جنگ، میزائل کے حملے، لگ بھگ دو سو سے زائد افراد کی شہادت، ساٹھ سے زائد بچوں کی قربانی اور ملینز سے زیادہ مالی نقصان کے بعد اسرائیل کو قدم پیچھے لینا پڑا، یہ یکطرفہ کارروائی ہے، غزہ نے اس پر کوئی شرط قبول نہیں کی ہے، بلکہ حماس کی شرائط پر جنگ بندی کا اعلان ہونے کے بعد تباہ شدہ مکانات کے اوپر چڑھ کر غزہ کے عوام یروشلم اور مسجد اقصی کا دفاع کرنے کی لڑائی میں اسرائیل کی دہشت گرد فوج کے خلاف جشن منارہے ہیں، اور دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو! تمہارے فرعونی نظام نے کیسے نہتے مگر ذوق شہادت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، ساتھ ہی دنیا کو ان کی حیران کن نگاہوں کا جواب علامہ اقبال کی زبانی یوں دے رہے ہیں:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
بلاشبہ یہ سپر پاور کی شکست فاش ہے، جو فلسطین کو فلسطینیوں کیلئے تنگ کردینا چاہتے وہ اپنی وسعتوں کے باوجود بے چینی کا شکار ہیں، بنجامن نتن یاہو کی سخت مذمت ہورہی ہے، اسرائیلی اذہان ٹویٹ کے ذریعہ اپنا درد و الم ظاہر کر رہے ہیں، دنیا ششدر ہے کہ کیسے ایک تنظیم اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے، اسرائیلی کالم نگار ڈونیل ہارٹمین نے ٹائمز آف اسرائیل میں اعتراف کیا ہے کہ: ‘اسرائیل کو جنگ میں شکست ہوئی ہے’۔ یہ تجربہ اس قدر کڑوا، کسیلا ہے کہ صہیونی فوجیوں کو اب بھی اس پر یقین نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ دوپہر میں جمعہ کی نماز کے دوران فلسطینیوں سے پھر جھڑپ کرنے کی کوشش کی گئی، نیز بیت الحم نارتھ میں فتح کا جشن منا رہے فلسطینی نوجوانوں پر کھسیائی ہوئی صیہونی فورسز نے حملہ کردیا، جس کے نتجے میں ایک بار پھر سے فلسطینی جوانون اور صیہونی فورسز کے درمیان فساد بھڑک اٹھا، ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے؛ بلکہ معاملہ اب بھی باقی ہے، بہرحال حقیقت یہ ہے کہ بعض مرتبہ فتح کا پیمانہ اپنے نظر یے کی بالادستی ہوتی ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس فریق نے کتنے میزائل داغے؛ بلکہ حوصلوں کی اڑان، صبر و ضبط اور میدان کارزار میں ثابت قدمی کو فوقیت دی جاتی ہے، آج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمانوں کو شکست دینا، ان سے دو دو ہاتھ کرنا آسان بات نہیں ہے، اور یہ کہ اسرائیل ایک دہشت گرد، توسیع پسند ملک ہے، اس کے سامنے بچے، عورتیں اور کمزوروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وہ بے درد اور بے دل ہیں، وہ صرف عالمی طاقتوں کی بنیاد پر اچھلتا ہے، ورنہ اس کے ہتھیار، اسلحے، آئرن ڈوم اور تمام جدید ٹیکنالوجی ناکام ہو چکے ہیں، دنیا بھر میں اس کی تھو تھو ہورہی ہے، یہودیوں کے خلاف نفرت پھر سے بڑھ گئی ہے، یہودیوں کے مشہور اخبار Jewish News کے مطابق غزہ پر حالیہ حملے کے بعد دنیا بھر میں یہودیوں سے نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایک یہودی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور امریکہ میں یہود مخالف واقعات میں 70%فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ سب سے دلچسب بات یہ ہے کہ ان واقعات میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔ یہودیوں پر حملوں میں ملوث اکثر افراد لادین یا عیسائی ہیں – ایسے میں اہل فلسطین اور غزہ کی خوشی، جشن اور میلاد بھی دیکھنے لائق تھی، جہاں ایک طرف دشمنوں کے چہرے زرد ہیں، صحافیوں کے درمیان صف ماتم ہے، اسرائیل میں سناٹا پسرا ہوا ہے، نتن یاہو کی کوئی تصویر نہیں، عالمی دجالوں کی کوئی ویڈیو نہیں؛ وہیں اہل غزہ سربسجود ہیں، اپنے رب کے سامنے جھک گئے ہیں، غرور، گھمنڈ اور تکبر سے دور خوشیاں منارہے ہیں؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی حقیقی منزل آئی نہیں ہے، بلکہ یہ محض ایک پڑاؤ ہے، راستہ طویل ہے، دوش بدوش رہنا ہے، اطاعت کا دامن اور جہاد کا علم پکڑے رہنا ہے، وہ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں تو علامہ اقبال کی یہ نظم آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
یہودیوں کو جب جرمنی سے بے دخل کیا گیا تھا تب انھیں عارضی طور پر اہل فلسطین نے پناہ دی تھی آگے چل کر یہی مہاجرین بعض عالمی طاقتوں کی شہ پر اصل باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے لگے، اُن کی جائدادوں پر جابرانا قبضہ کیا گیا اور اب ان کی جانیں بھی خطرے میں ہیں ـ
کہتے ہیں کہ فلسطینی مظلوموں کے خلاف اسرائیلی تشدد کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، پچھلے ستر سال سے اس طرح کی وحشیانہ کارروائی کرتارہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے مسلم ممالک اور دیگر عالمی طاقتیں اس پر خاموش رہتی ہیں یاصرف زبانی مذمت کو کافی سمجھتی رہی ہیں ـ تشدد کا موجودہ دور مسجد اقصی کی بے حرمتی اور وہاں عبادت کررہے نمازیوں پر اسرائیلی افواج کی بے تحاشا فائرنگ کے اور اتشزنی کے بعد شروع ہوا ہے ـ ساری دنیا جانتی ہے کہ کہ مسجد اقصی ہم مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، دنیا کا ہر مسلمان بیت المقدس کی دل سے عزت کرتا ہے اور اس کی ادنی سی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کرسکتا ـ اسرائیلی افواج کی جانب سے کی جانے والی اس بے حرمتی پر وہاں کے مقامی لوگوں نے جب احتجاج کیا ہے تو ان پر بھی بے تحاشا فائرنگ کی گئی، فلسطین اور غزہ کے لوگوں کے مزید احتجاج پر جدید ہتھیاروں سے لیس فوج نے ظلم وستم کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ، غازہ پٹی میں رہائشی مکانات، اسپتال اور اسکولوں وغیرہ پر زبردست کارپیٹ بمباری کی گئی، اسرائیلی افواج کے اس ظالمانہ اور وحشیانہ قدم سے تقریبا دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، ان کے اندر شدید غم اور غصہ ہے ـ
بعد از خرابی بسیار جب سینکڑوں بے گناہ فلسیطینی باشندےجن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں شہید ہوگئے، کڑوڑوں ڈالر کی ملکیت کا نقصان ہوگیا تب جاکر جنگ بندی ہوپائی ہے ـ تاہم جس طرح فلسطین اور غازہ کے نہتےاور بے سروسامان مجاہدین نے صیہونیوں کی ننگی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اس سے اسرائیل کے سوپر پاور ہونے کا غرور پاش پاش ہوگیا ہے ـ مَیں غازہ اور فلسطین کے بہادر مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مجاہدین کی اسی بہادری اور قربانی کے جذبے نے اسرائیل جیسے وحشی کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا ہے ـ
امن عالم کی حفاظت کا دعوی کرنے والے تمام عالمی اداروں اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل، عرب لیگ اور او آئی سی کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے مزید اس بات کے کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ اسرائیل اس قسم کی جارحانہ اقدام سے باز رہےگا ، اور عالمی طاقتیں خصوصا مسلم ممالک امن عالم کو ہمیشیہ خطرے میں ڈالنے والے ملک اسرائیل کے خلاف زبانی جمع خرچ کرکے ٹال دینے کے بجائے موثر کارروائی کریں گے۔
دو سو سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے بعد بظاہر یہ قول عجیب معلوم ہوتا ہے البتہ یہ غیبی نظام ہے کہ شر میں بھی بعض دفعہ خیر کا پہلو نکل آتا ہے۔ایک کمزور اور بے یار و مددگار خطہ غزہ پر اسرائیلی بمباری بدستور جاری ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے جب فلسطینی باشندے اس بدترین ظلم کا شکار ہوئے ہیں اور نہ ہی شاید آخری مرتبہ ہو۔ ہر آنے والا دن فلسطینیوں بالخصوص اہل غزہ کے لیے بظاہر تاریک نظر آتا ہے۔ان سب کے باوجود بعض ایسے خیر کے پہلو بھی ہیں جو ہم سے صرف نظر ہو جاتے ہیں۔یہاں اسرائیلی جارحیت اور اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کے وہ پہلو پیش ہیں۔
- سوشل نیٹورکنگ سے اسرائیلی ظلم کا آشکار ہونا
ایسا نہیں ہے کہ اسرائیلی ظلم و تشدد کے واقعات کی ترسیل پہلے نہیں ہوتی تھی۔ البتہ پہلے ایک عام آدمی کو فلسطین کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔ ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں تھا کہ وہ براہ راست فلسطین کے حالات و واقعات سے باخبر رہ سکیں۔ آج ہر شخص جسے سمارٹ فون کا بنیادی استعمال آتا ہو وہ بیک وقت اسرائیلی بمباری اور حماس کی مزاحمتی کارروائیوں کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ جہاں آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) جیسے ٹویٹر ہینڈل ہیں وہیں قدس نیوز نیٹورک اور حماس کی ملٹری ونگ القسام بریگیڈ بھی ہے جن کہ ذریعہ ہر لمحہ کی خبر مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کی کریہہ شبیہہ دنیا کے سامنے جس قدر عیاں ہوئی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ - . کھلاڑیوں، فلمی اداکاروں اور دوسرے بااثر افراد کا فلسطین کی حمایت میں آنا
سوشل نیٹورکنگ اور دوسرے ذرائع سے صحیح خبریں حاصل کرنا یا یوں کہیں کہ خبروں کو چھانٹنا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کھیلاڑی، اداکار اور دوسرے مشہور و بااثر افراد فلسطین کے ساتھ کھل کر اظہار یکجہتی پیش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مشہور بھارتی اداکرہ سوارہ بھاسکر، مینچسٹر یونایٹڈ اور فرانس کی نیشنل ٹیم کے فٹبالر پول پوگبہ ، ا مریکہ کے معروف اداکار (جن کے تقریباً 75 لاکھ ٹویٹر فولوور ہیں) مارک رفیلو، الجزیرہ کی نیوز اینکر سنا سعید، امریکہ کی مشہور و معروف موڈل بیلا حدید جن کے چار کروڑ سے زیادہ انسٹاگرام فولووَرہیں اور ان جیسے بے شمار لوگ اب کھل کر فلسطین کی حمایت میں بولنے لگے ہیں۔ - غیر متعصب مانے جانے والے مغربی میڈیا کا چہرہ بے نقاب ہونا
نیو یارک ٹائمز، بی بی سی اور واشنگٹن پوسٹ جیسے بڑے میڈیا گھرانوں کے بارے میں یہ مانا جاتا رہا ہے کہ ان کی رپورٹنگ غیر جانبدارانہ رہتی ہے۔ یہ مفروضہ اب دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگا ہے۔حالیہ دنوں میں ان کی رپورٹنگ اور اس میں استعمال کیے گئے الفاظ یا یہ کہیں کہ الفاظ کے ساتھ کھیل (wordplay) ایک عام قاری کے ذہن میں ایک خاص قسم کا تاثر بناتا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی اس سرخی کو دیکھیں :
Israelis and Palestinians Clash Around Jerusalem’s Old City
یا بی بی سی کی اس سرخی کو دیکھیں:
Al-Aqsa mosque: Dozens hurt in Jerusalem clashes
شیخ جراح جہاں فلسطینیوں کو اپنے گھر سے بے دخل کیا جارہا تھا اسے خبر نہیں بنایا گیا۔ بلکہ جب کچھ فلسطینی مسلمان ایک دعوت افطار میں شریک تھے اور ان پر شدت پسند صیہونیوں نے حملے کیے تو اسے ‘جھڑپ’ کا نام دے دیا گیا.