ازقلم: ابومعاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس: جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ آندھرا پردیش
اللہ تعالی نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
احل الله البيع وحرم الربا (البقرة:275)
اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔
اس آیت کے تحت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
”کفر و شرک کے بعد سب سے زیادہ جس گناہ کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے وہ سود ہی ہے، رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، سودی لین دین کے معاملہ میں گواہ بننے والے اور سودی معاملہ کو لکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد:3333) مالی لین دین کے معاملہ میں ایک فریق کی طرف ایسا اضافہ جس کا دوسرے فریق کی طرف سے کوئی عوض نہ ہو ربا ہے جس کو اردو میں سود کہتے ہیں، بینک انٹرسٹ، انشورنس میں ملنے والا نفع، باؤنڈز پر ملنے والی زیادہ رقم، آج کا رہن کے طور پر مقروض سے مکان اور کھیت حاصل کرکے اس سے نفع اٹھانے کا جو رواج ہے یہ سب سود کی صورتیں ہیں۔ (آسان تفسیر قرآن)
نص قطعی سے ثابت ہے کہ سود حرام ہے اس کی سخت شناعت کتاب و سنت میں موجود ہے اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں سودی لین دین عروج پر ہے، شاید ہی کوئی ایسی بستی، قصبہ، شہر یا کوئی مسلم سوسائٹی ہو جہاں سودی لین دین کا رواج نہ ہو۔
موجودہ دور میں مسلم معاشرے کے اکثر و بیشتر حضرات اس فعل حرام میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہوہی جاتے ہیں ، اس سے آزاد ہونا اور چھٹکارا پانا ازحد ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کسی کو سود لینے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
وجہ یہ ہے کہ انسان ضرورت و حاجت کا پتلا ہے اسے کسی نہ کسی وجہ سے ضرورت پڑتی ہے اور اسی ضرورت و مجبوری میں اسے بسا اوقات روپے پیسے کی بھی حاجت ہوتی ہے ایسی صورت میں وہ قرض کا خواہاں ہوتا ہے، لیکن سوسائٹی میں اب کوئی کسی کو قرض دینا نہیں چاہتا ہے، کیونکہ قرض لینے کے بعد قرض کی ادائیگی میں اکثر وبیشتر ٹال مٹول کو اپناتا ہے، یا اگر کوئی سخت و تند ہو تو بسا اوقات وہ قرض کی ادائیگی سے مکر جاتا ہے، نیز مسلمانوں کا کوئی بیت المال بھی نہیں ہے جہاں سے وہ وقت ضرورت پر قرض لے سکے، ایسی صورت میں وہ چاروناچار سود لینے پر مجبور ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو سود سے کیسے پاک کریں؟
کاتب السطور کے ذہن میں اس سلسلے میں ایک خاکہ ہے اسی کو ذہن کے پردہ سے اتار کر قرطاس کے حوالہ کیا جارہا ہے۔
اسلام میں قرابتدار اور رشتہ داروں سے مضبوط تعلق رکھنے کی بڑی اہمیت اور قدروقیمت ہے بلکہ ایک دوسرے سے متعلق حقوق بھی ہیں جس کا پاس و لحاظ اور پاسداری کرنا بہت اہم ہے انہیں میں ایک یہ بھی ہے کہ نادار رشتہ داروں کی مدد و تعاون کی جائے۔
ایسا کوئی سوسائٹی یا خاندان نہیں ہے جہاں سب کے سب حاجت مند اور محتاج ہوں بلکہ ان میں بعض متمول اور خوش حال ہوتے ہیں، ایسے متمول حضرات اپنے خاندان کے کمزوروں کی اس طرح تعاون کرسکتے ہیں کہ کسی کو بھی گراں نہیں گذرے ، اس کی شکل یہ ہے کہ خاندان کے دس یا بیس مالدار حضرات ہر ماہ اپنی تنخواہ سے صرف پانچ سو روپے وضع کرے، اگر بیس افراد ہیں تو ایک ماہ میں دس ہزار روپے ہوں گے اور سال بھر میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے جمع ہوں گے، اس کے بعد خاندان یا سوسائٹی میں جن کو قرض کی ضرورت ہو ان کا کوئی سامان گروی رکھ کر اس کے عوض جمع شدہ مال سے قرض دے۔
اسی طرح ہر سال روپے جمع کرتے رہیں ان کا روپے بھی جمع ہوتا رہے گا اور ساتھ ہی قرابتدار ، رشتہ دار یا اس کے علاوہ دیگر مسلمان بھائیوں کی مدد و تعاون بھی ہوتا رہے گا، اگر اس طریقہ کو اپنایا جاۓ تو اس طرح سے کسی بھی مسلم معاشرہ سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے، اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔ (آمین)