امام اعظم ابوحنیفہ ؓ اسلام کی ان عظیم شخصیات میں شامل ہیں جن کا ملت اسلامیہ پر بڑے احسان ہیں،آپؓ نے سب سے پہلے فقہ کو مرتب کیا اور فقہ اسلامی میں آپؒ کو جو مقام حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ سیدنا امام محمد باقرؓ کی صحبت میں کچھ عرصہ اور بالخصوص سیدناامام جعفرصادقؓ کی صحبت میں دو سال گزارے۔امام شافعیؓ فرماتے ہیں جوشخص فقہ کی معرفت حاصل کرنا چاہے وہ ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کی صحبت لازمی اختیار کرے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں اُن کے عیال ہیں یعنی فقہ کا فیض ہر ایک کو امام اعظمؓ ہی سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ملتا ہے۔
امام اعظمؓ کا اسم گرامی نعمان بن ثابت اور کنیت ابوحنیفہ ہے،امام اعظمؓ کے آباء و اجداد فارسی النسل تھے،آپؓ کے دادا سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے اور آپ ؓ سے بے پناہ عقیدت و محبت کی بناء پر اپنا علاقہ چھوڑ کر کوفہ میں آباد ہوئے،جب امام اعظم ؓ کے والدحضرت ثابت ؓپیدا ہوئے،دعا ئے برکت کے لئے بارگاہ مرتضوی میں پیش کیا گیا،سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی دعا ہی کا اثر تھا کہ حضرت ثابت ؓ کے ہاں امام اعظم ؓ تولد ہوئے اور اس طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت بھی پوری ہوئی کہ فرمایااگر دین اوجِ ثریا پر بھی ہو اتو اہل فارس یا ابناء فارس میں سے ایک شخص اسے وہاں سے بھی پالے گا۔امام احمد بن حنبلؓ،امام جلال الدین سیوطیؓ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور دیگر اکابر اسلام نے اپنی کتب میں اس بات کی صراحت فرمائی کہ اس حدیث میں جس ہستی کے بارے پیشن گوئی فرمائی گئی ہے وہ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؓ ہی ہیں۔ امام اعظمؓ نے ابتداء عمر میں ہی حفظ قرآن کیا اور چار ہزار علماء و محدثین سے دین کا علم حاصل کرتے ہوئے ایسے جلیل القدر فقیہ اور محدث بنے کہ ہر طرف آپ کے چرچے ہوئے۔آپؓ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے ملاقات کی لہٰذا آپؓ شرف تابعیت سے مشرف ہوئے۔ ائمہ اربعہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؓ،امام مالک ؓ،امام شافعیؓ اور امام احمد بن حنبل ؓ کی فقہ سے امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا لیکن ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہواجس کااعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے اور اس کے مقلدین ہر دور میں اکثریت میں شمار ہوتے رہے۔ امام اعظمؓ وہ جلیل القدر وعظیم المرتبت ہستی ہیں جن کی جلالت شان،امامت و فقاہت اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم و فضل،کبار فقہاء و محدثین نے تسلیم کیا ہے۔حضر ت علی بن عاصم ؓ فرماتے ہیں اگر ابوحنیفہ ؓ کے علم کا ان کے زمانہ کے لوگوں کے علم سے وزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہوجائے گا،حضرت عبداللہ بن مبارکؓ فرماتے ہیں ابوحنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے،حضرت سفیان بن عینیہ ؓ فرماتے تھے علماء تو یہ تھے عبداللہ بن عباسؓ اپنے زمانہ میں،امام شعبی اپنے زمانہ میں، ابوحنیفہ ؓ اپنے زمانہ میں اور سفیان ثوری ؓ اپنے زمانہ میں۔امام اعظم ؓ نے رزق حلال کے لئے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا تو لوگوں سے بھلائی اور شرعی اصولوں کی پاسداری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے قیامت تک کے لئے تاجرین کے لئے روشن مثال قائم فرمائی۔ امام اعظم ؓ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 40 سال سے زائد ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ؓدن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔امام اعظمؓ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد تو بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے، ان کے علاوہ قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری کے مؤلف امام بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام ؒآپ کے شاگردین کے شاگرد ہیں۔
امام اعظم ؓ امت مسلمہ کے محسن ہیں،آپؓ کے چشمہ فیض سے کروڑہا سینے مستفیض ہوچکے ہیں۔امام اعظمؓ فقہ کے اول مدون ہیں، تمام فقہاء و مجتہدین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ فقہ حنفی دنیا کی وہ عظیم فقہ ہے جو امام اعظمؓ اور آپؓ کے تلامذہ کے اجتہادات کا خلاصہ ہے،سینکڑوں برس گزر جانے کے باوجود فقہ حنفی کی جو معنویت ہے وہ دوسری کسی بھی فقہ میں نظر نہیں آتی، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فقہ حنفی فطرت کے عین مطابق ہے اس میں ہر اس مسئلہ کا حل موجودہے جس کا فطرت تقاضہ کرتی ہے۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی