مذہبی مضامین

قرآن مقدس تحریف سے پاک ہے

تحریر: احمد رضا مصباحی
بہنگواں، امبیڈکر نگر، یو۔پی۔

کلام الٰہی انسانیت کی ہدایت کے لئے اُترا۔ جس نے بھی اس عظیم کلام کو پڑھا ، اور حق شناسی کی کوشش کی، اسے ہدایت ملی ۔ کچھ ہدایت سے محروم بھی رہے ؛کیونکہ قرآن مقدس کو پڑھ کر اس کے تمام اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنا ہر کس ناکس کا کام نہیں ۔اس کے لئے سیکڑوں علوم و فنون میں مہارت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر اور جامع ہے لیکن مفاہیم و مطالب کے اعتبار سے لامحدود ۔ جس کے پاس جتنا علم ہے اسی حساب سے وہ کلام ِ خدا کو سمجھتا ہے۔
قرآن کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل اور تقریرکو سامنے رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے جسے ہم حدیث کے نام سے جانتے ہیں ۔ احادیث مبارکہ خود اپنے آپ میں علوم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ۔سیکڑوں محدثین نے احادیث مبارکہ کو سیکھنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ پھر بھی کوئی شخص یہ دعوی ٰ نہیں کرسکتا کہ مجھے احادیث کا پورا علم ہے ۔ تو قرآن جو کلام الٰہی ہے، لفظاً مختصراو ر معنیً بے پناہ وسیع ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہوگا ۔
قرآن مقدس تضاد و اختلاف سے پاک ہے ۔ اس کی طرف تضاد کی نسبت کرنا جہالت ہے ۔ ابھی حال ہی میں مرتد و گستاخ صحابہ و قرآن وسیم رضوی نے کہاکہ ’’ قرآن کا پیغام دو طرح کا نہیں ہوسکتا اس میں (۲۶) آیتیں ایسی ہیں جو فساد ( VIOLENCE ) کو پڑھاوا دیتی ہیں انھیں قرآن سے ( REMOVE )نکال دیا جانا چاہئے ‘‘ یقیناً قرآن میں نہ کوئی کجی ہے اور نہ اختلاف ۔ جو تضاددکھتا ہے وہ اس بات کا غماز نہیں ہے کہ قول خدا میں حقیقۃً تضاد ہے ۔ پڑھنے والی کی کم علمی اسے غلط فہمیوں کے جال میں پھنسادیتی ہے ۔ اور پھر یہ فیصلہ کر بیٹھتا ہے کہ قرآن میں ہی تضاد اور اختلاف ہے ۔جبکہ قرآن مقدس ان تمام عیوب سے پاک ہے ۔
قرآن مقدس کو سمجھنے کے لئے تقریباً ( ۱۵)علوم ایسے ہیں جن میں مہارت کی ضرورت پڑتی ہے جیسے علم معانی ، علم بدیع ، علم صرف ، علم نحو ،علم بلاغت ، علم تاریخ ، علم تفسیر ، علم تدوین ، علم ترتیب وغیرہ ۔ جس شخص کو ان تمام علوم میں مہارت نہ ہو اسے قرآن میں گفتگو کرنا جائز نہیں ۔ چہ جائے کہ مدون ِ قرآن اور خلفائے راشدین پر الزام تراشی کرے کہ انھوں نے کلام میں اپنی طاقت کے بل بوتے تحریف کی ہے ۔ یہ قرآن کے جمع کرنے والوں پر بہت بڑا الزام ہے ۔ اس طرح کی بے جا الزام تراشی خود فساد کو بڑھاوا دینے کا کام کرتی ہے ۔
وہ قرآن جو ایک لا زوال کتاب ہے ۔ جس کے حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لے رکھی ہے بھلا اس میں خرد برد کب ممکن ہے ۔ اس کے کلمات کو تبدیل کرنے کی طاقت کس میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللہِ ‘‘ ( سورۃ الانعام : ۳۴) اللہ کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر وسیم رضوی کو خدا کے اس فرمان پر ذرہ برابر بھی ایمان ہوتا تو تہمت جیسی حقیر حرکت سے باز رہتا ہے ۔ اس نے نہ قرآن کو چھوڑا اور نہ حافظ قرآن کو ۔ نہایت قسم کا غلیظ انسان ہے ۔ فکری اور علمی دونوں اعتبار سے فسادی ہے ۔ اسے چاہئے کہ خود اپنے فساد کا علاج کرے نہ کہ قرآن مقدس سے ہی نا سمجھ آنے والی آیتوں کے نکالنے کا مطالبہ کرے ۔ ایسا شخص نَرا جاہل ہے ۔ اور جاہلوں کے بارے میں امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا :
’’ اگر نادان جاہل خاموش رہے تو اختلاف کم ہو ، اور جو اقوال علماء کو سمجھنے سے قاصر ہو اسے زبان کھولنے اور لایعنی باتوں میں پڑنے کا کیا حق ہے ؟ بلکہ اس پر واجب ہے کہ سکوت اختیار کرے ۔ اور جب کوئی نئی بات سنے جو پہلے سے اس کے علم میں نہ ہو تو یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ ایک نیا فائدہ ہے اس کو اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت شمار کرے اور جس سے یہ نفع ملا ہے اس کے حق میں دعا کرے اور اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرے۔‘‘

(اتمام النعمۃ فی اختصاص الاسلام بھذہ الامۃ للا امام جلال الدین السیوطی ترجمہ : ہمارا نام مسلمان کیوں؟ ص: ۱۹ )
قرآن کل بھی محفوظ تھا ، قرآن آج بھی محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گا ۔ اس میں تبدیلی دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ اس کے حفاظت کی خود ذمہ داری اللہ رب العزت کے ذمہ کرم پر ہے، اور اس میں تحریف کی کوشش کرنا معبود حقیقی سے اعلان جنگ کرنا ہے جس کا انجام خود دیکھے گاان شاء اللہ تعالیٰ ۔ خدا ہدایت دے ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے