تحریر: ساجد محمود شیخ، میراروڈ، تھانے مہاراشٹرا
مکرمی
اتراکھنڈ کے نئے وزیرِِاعلٰی تیرت سنگھ راوت کے اس بیان پر واویلا شروع ہوگیا ہے،جس میں انہوں نے لڑکیوں کی ریپیڈ جنس پینٹ یعنی پھٹی ہوئی جنس پینٹ پر اعتراض کیا ہے ۔بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر ان کے بیان پر اعتراض کر رہے ہیں،مگر میرے خیال میں یہ غیر ضروری ہے ۔ پھٹی ہوئی جنس پہننا ایک فیشن ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں اچھی خاصی جنس کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر پہنتے ہیں ۔ پھٹی ہوئی جنس پہننے سے لباس کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے جسم دکھائی دیتا ہے ۔ ہم لباس اس لئے پہنتے ہیں تاکہ ہمارا جسم چھپارہے۔اگر لباس پھٹا ہوگا تو اسے پہننے کا کیا فائدہ۔ عورتوں کو اپنا جسم ڈھانک کر رکھنا چاہیے۔ ایسے فیشن سے بے حیائی پھیلتی ہے۔ یہ مشرقی روایات کے کے خلاف ہے ۔ آج سماج کے تعلیم یافتہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کو اپنے جسم کا کوئی حصہ کھول کھول دینے میں باک نہیں ہے۔ ان کے ہاں لباس محض زینت کے لئے ہے،ستر پوشی کے لئے نہیں ہے ،جبکہ لباس کا مقصد زینت سے زیادہ ستر پوشی ہے ۔ عریانی ایک ایسی ناشائستگی ہے جس کو کسی حال میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ابو لمجاہد زاہد رح کا یہ شعر پیشِ خدمت ہے۔
لباسِ نیم عریاں کی تو شیدائی تو ہے لیکن
مجھے یہ شرم و غیرت کا کفن محسوس ہوتا ہے