سلسلہ ماہِ رمضان : قسط نمبر 1
تحریر:شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی، مالیگاؤں
حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ رمضان مہینے کے لئے جنت پورے سال سجائی جاتی ہے۔ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے ( یعنی پہلی تراویح کی رات ) تو عرش کے نیچے ایک ہوا چلتی ہے جو جنت کے پتوں میں سے گزرتی ہوئی آہو چشم حُوروں کے اوپر پہنچتی ہے۔ اس ہوا کو پاکر حوریں کہتی ہیں:’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنے نیک بندوں میں سے ایسے شوہر عطا فرما جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور جن کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں‘‘۔ ( سُنن بیہقی امام احمد بن حسین بیہقی)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے والے مسلمانوں کو کئی بشارتیں ( خوشخبریاں ) دی ہیں۔ پہلی بشارت یہ ہے کہ روزہ رکھنے والوں سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے۔ دوسری بشارت یہ ہے کہ روزہ دار کے لئے جنت واجب کر دیتا ہے۔ تیسری بشارت یہ ہے کہ روزہ داروں کے استقبال کے لئے اللہ تعالیٰ سال بھر جنت کو آراستہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور سال بھر جنت روزہ داروں کے لئے سجائی جاتی رہتی ہے۔ ماہِ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ عرش کے نیچے سے اتنی اچھی ہوا بھیجتا ہے کہ جنت کی حوریں اس ہوا سے خوش ہوتی ہیںاور جب انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہِ رمضان کی پہلی رات ہے۔ ( دوسری روایات میں ہے کہ یہ حوریں جنت کے دربار (رضوان) سے پوچھتی ہیں کہ یہ کون سی رات ہے؟ تو وہ انھیں بتاتا ہے کہ ماہِ رمضان کی پہلی رات ہے۔ ) اور اب اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے روزے رکھیں گے اور تکلیف اور مشقت برداشت کریں گے تو وہ حوریں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہیں کہ اے اللہ ہمیں ان روزہ داروں میں سے اچھے شوہر عطا فرما۔
اب ہم مسلمانوں کے لئے یہ غور وفکر کا مقام ہے کہ کیا ہم اس لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے استقبال کے لئے سال بھر جنت کو آراستہ کروائے ۔ ہر مسلمان اپنے آپ کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ اس نے پچھلے ماہِ رمضان کے روزے پورے رکھے یا نہیں ۔ اگر کسی مسلمان نے پچھلے ماہِ رمضان میں پورے روزے نہیں رکھے ہوں تو وہ اس بات کا اپنے آپ سے عہد کر ے کہ انشاء اللہ ااس ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھوں گا اور اس سال پورے روزے رکھنے کی کوشش کرے۔ تا کہ کم سے کم اس کا نام ان امیدواروں کی لسٹ میں آجائے جن کے لئے اللہ تعالیٰ سال بھر جنت کو آراستہ کرواتے ہیں۔ اگر کسی مسلمان نے پچھلے ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھے ہوں تو وہ یہ غور کرے کہ اس نے پچھلے سال اپنے روزوں کی حفاظت کی تھی یا نہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ روزہ رکھ کر والدین سے بد تمیزی کی ہو۔ یا پھر کسی کی غیبت کی ہو۔ یا پھر رشتہ داروں ، دوست اور احباب وغیرہ سے بد کلامی کی ہو۔ یا کسی کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کی ہو۔ یا اپنا وقت فضول باتوں میں گزارا ہو۔ اگر یہ سب نہیں کیا تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر ان میں سے ایک بُرائی یا کچھ برائیاں اس نے پچھلے رمضان میں کی ہوں تو اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگے۔ اور عہد کرے کہ اس ماہِ رمضان میں ان تمام برائیوں سے پاک روزے رکھے گا۔ اگر وہ اس ماہِ رمضان میں اپنے عہد پر کامیاب ہو گیا تو انشاء اللہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن کے لئے اللہ تعالیٰ سال بھر جنت آراستہ کرواتے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم مسلمانوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ وہ ہمیں اتنا بڑا اعزاز عطا فرما رہا ہے ۔ ذرا ہم غور کریں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا عہدہ دار ( وزیر اعظم) کسی شہر میں جاتا ہے تو اس کے استقبال کی تیاریاں مہینے دو مہینے پہلے سے کی جانے لگتی ہیں۔ لیکن یہاں تو اللہ تعالیٰ پورے سال استقبال کی تیاریاں کروا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزے دار کا کتنا بڑا مقام ہے۔