تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
قسط اول میں یہ وضاحت پیش کی گئی کہ قضیہ کلیہ اگر یقینی ہوگا تو اس کے موضوع کے افرادپر اس کے محمول کا حمل واطلاق یقینی طورپر ہوگا،اور قضیہ کلیہ اگر ظنی ہوگا تو اس کے موضوع کے افراد پر اس کے محمول کا حمل واطلاق ظنی ہوگا۔
اسی طرح قضیہ کلیہ کاذبہ ہوتو اس کے موضوع کے افرادپر اس کے محمول کا حمل واطلاق کذب وغلط ہوگا۔
اسی طرح جب قضیہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہوتو اس کے موضوع کے افراد پر اس کے محمول کا حمل واطلاق ضروریات دین سے ہوگا۔
نیز یہ بھی بیان کیا گیا کہ قاعدہ کلیہ جو ضروریات دین میں سے ہو، اس کے موضوع کے افرادکا تعین چھ دلائل سے ہوسکتا ہے۔
(1)عقل صحیح (2)آیت قرآنیہ قطعی الدلالت (3)حدیث متواتر قطعی الدلالت
(4) اجماع متصل(5)خبر متواتر (6)حواس ظاہرہ۔
ان میں سے تین دلائل وصال نبوی کے سبب منقطع ہوچکے ہیں اور تین دلائل باقی ہیں۔
قسط دوم میں مذکورہ بالا دلائل ستہ کی وضاحت اور مثالیں مرقوم ہیں۔
دلیل اول:عقل صحیح-افراد کا ثبوت عقل صحیح کے ذریعہ:
”نبی“ایک نوع ہے۔اس کے افراد کا ثبوت عقل صحیح کے ذریعہ ہوتا ہے۔ نبی ورسول اپنی نبوت ورسالت کی نشانی اور دلیل کے طورپر معجزہ ظاہر فرماتے ہیں۔ معجزہ دیکھ کر عقل صحیح ان کی نبوت وپیغمبری کو صحیح قرار دیتی ہے،پس نوع نبی کے افرادکاتعین عقل کے ذریعہ ہوتا ہے۔
دلیل دوم:قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ:
افراد کا ثبوت قرآن مجیدکی قطعی الدلالت آیت مقدسہ کے ذریعہ
متعددانبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی نبوت ورسالت کا ذکر قرآن مجید میں ہے، پس ان انبیائے عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا نبی و رسول ہونا قرآن مجید سے ثابت ہوا۔
(واذکر فی الکتٰب موسی انہ کان مخلصًا وکان رسولا نبیا)
(سورہ مریم:آیت51)
(واذکر فی الکتٰب اسماعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا)
(سورہ مریم:آیت54)
(واذکر فی الکتب ادریس انہ کان صدیقا نبیا)(سورہ مریم:آیت 56)
قرآن مجید میں قوم فرعون کے ایک مومن کا ذکر ہے،جسے مومن آل فرعون کہا گیا۔
(وقال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانہ:الاٰیۃ)(سورہ غافر:آیت 28)
مومن آل فرعون کے مومن ہونے کا ثبوت قرآن مقدس میں موجودہے۔
سورہ یٰسین شریف میں بھی عہد عیسوی کے چند مبلغین اور ایک مومن کا ذکر ہے۔
(واضرب لہم مثلا اصحاب القریۃ اذجاء ہا المرسلون::اذ ارسلنا الیہم اثنین فکذبوہما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون)
(سورہ یٰسین:آیت 13-14)
توضیح:آیات منقوشہ بالا میں مرسلین سے مبلغین مرادہیں۔شخص ثالث سے حضرت شمعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے دوحواری کو تبلیغ دین کے واسطے انطاکیہ بھیجا تھا۔ان دونوں کی تبلیغ سے انطاکیہ کے حبیب نجار ایمان لائے تھے۔قبول ایمان کے بعدوہ پہاڑ کے غار میں مصروف عبادت ہوگئے۔
بعض مفسرین نے فرمایاکہ ان دونوں کے نام یوحنا اور بولس تھے۔بعض نے فرمایا کہ دونوں کے نام صادق ومصدوق تھے۔
ان دونوں مبلغین نے باشندگان انطاکیہ کو دین کی تبلیغ فرمائی۔اہل انطاکیہ نے انکار کیا،تب حبیب نجار غار سے نکل کر آئے،اور گاؤں والوں کوسمجھایا۔ قرآن مجیدمیں ہے۔
(وجاء من اقصا المدینۃ رجل یسعٰی قال یقوم اتبعوا المرسلین:: اتبعوا من لا یسئلکم اجرًا وہم مہتدون::ومالی لا اعبد الذی فطرنی والیہ ترجعون::ء اتخذ من دون اللہ آلہۃ ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتہم شیئا ولا ینقذون::انی اذا لفی ضلال مبین::انی آمنت بربکم فاسمعون::(سورہ یٰسین:آیت25-20)
دلیل سوم وچہارم:قطعی الدلالت حدیث متواتر واجماع متصل:
افراد کا ثبوت قطعی الدلالت حدیث متواتر واجماع متصل کے ذریعہ:
جیسے قرآن مجید سے افراد کا ثبوت ہوتا ہے،ویسے ہی حدیث متواتر اور اجماع متصل سے بھی افراد کا ثبوت ہو گا۔ اجماع متصل سے قرآن مجید کا کتاب الٰہی ہونا ثابت ہے۔ کتاب الٰہی ایک نوع ہے۔
توریت،انجیل،زبور،قرآن مجید اس نوع کے افراد ہیں۔
دلیل پنجم:حواس ظاہرہ-افراد کا ثبوت حواس ظاہرہ کے ذریعہ:
قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افراد کا یقینی ثبوت مذکورہ دلائل ثلاثہ کے علاوہ عقل صحیح،خبر متواتر اور حواس ظاہر ہ سے بھی ہوتا ہے۔جب کسی فرد کی فردیت یقینی ہوجائے تو موضوع کلی کے لیے جوحکم بیان کیا گیا ہے، وہ حکم اس فرد کے لیے یقینی طورپر ثابت ہوگا۔
حواس ظاہرہ کے ذریعہ فردیت کے ثبوت کاذکر منقو شہ ذیل آیت مقدسہ میں ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی:(یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اِذَا ضَرَبتُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَن اَلقٰی اِلَیکُمُ السَّلٰمَ لَستَ مُؤمِنًا تَبتَغُونَ عَرَضَ الحَیٰوۃِ الدُّنیَا فَعِندَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنتُم مِّن قَبلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیکُم فَتَبَیَّنُوا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیرًا)(سورہ نسا:آیت94)
توضیح: ایک سریہ کے موقع پر کافروں کی آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان، صحابہ کرام کے لشکر کودیکھ کر نہ بھاگے،کیوں کہ وہ مسلمان تھے۔ ان کی قوم کے لوگ بھاگ گئے۔
اس مسلمان نے اسلامی لشکر کو مسلمانوں کے طریقے پر سلام کیا۔مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ محض اپنی جان بچانے کے لیے ایسا کررہے ہیں اورانہیں قتل کردیا۔
اسی موقع پریہ آیت مقدسہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب کوئی سلام کرے تو بلاتحقیق اسے کافر سمجھ کرقتل نہ کیا جائے،کیوں کہ اس نے اسلام ظاہر کیا تو اسے ابتدائی مرحلہ میں مسلما ن ہی سمجھا جائے گا،پھر تحقیق کے بعد جوحقیقت ظاہرہو، اس پرعمل ہوگا۔
منقوشہ بالاآیت مقدسہ میں حواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی فرد کے تعین کی واضح دلیل ہے۔ہجرت سے قبل مومنین بھی مکہ معظمہ میں کفار کے درمیان اقامت گزیں تھے،بلکہ ہجرت کے بعد بھی بہت سے ضعیف وناتواں لوگ مکہ مکرمہ سے نکل نہ پائے،پس کفار کے درمیان اقامت گزینی کو دلیل بناکر اسے کافر نہیں سمجھا جائے گا،بلکہ جو کلمہ اسلام یا شعار اسلام اس سے ظاہر ہو،اس اعتبارسے اسے مسلمان تسلیم کیا جائے گا۔
امام جلال الدین سیوطی شافعی (۹۴۸ھ-۱۱۹ھ)نے آیت منقوشہ بالا کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں نقل فرمائی ہیں۔ان سے بالکل واضح ہے کہ کوئی آدمی کسی کے سامنے اسلامی کلمہ پڑھے،یا اسلامی شعارکا اظہار کرے تواسے مومن سمجھا جائے گا۔ان احادیث طیبہ سے واضح ہے کہ حواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی کی فردیت کاتعین ہوگا۔
کوئی کلمہ اسلام پڑھے تو کانوں سے سناجائے گا۔کوئی اسلامی شعار اختیار کرے تو آنکھوں سے دیکھا جائے گا،مثلاً اسلامی لباس پہنے۔بعض شعار اسلامی مثلاً اذان دے تو کانوں سے سنا جائے گا۔کلمہ اسلام پڑھنے والوں اورشعار اسلامی اختیار کرنے والوں کو مومن سمجھا جائے گا۔
اس سے واضح ہوگیا کہ فرد کی فردیت کا تعین حاسہ سمع وبصر بھی ہوگا۔
دل کی حالت سے کوئی عام انسان باخبر نہیں،بلکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کیسے اس کے ایمان کا علم ہواتوارشاد فرمایا:اس کی زبان سے،یعنی اقرارمعتبر ہے۔
اقرار اورسماعت اقرار،یا کسی اسلامی فعل کی ادائیگی اور دوسروں کواس کا ادراک،یہ تمام امورحواس ظاہرہ سے انجام پاتے ہیں۔
حدیث اول:
(1)قال السیوطی:(اخرج ابن ابی حاتم عن ابن عباس قال:کان الرجل یتکلم بالاسلام ویؤمن باللّٰہ والرسول،ویکون فی قومہ-فاذا جائت سریۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اخبر بہا حیہ،یعنی قومہ-واقام الرجل لا یخاف المؤمنین من اجل انہ علٰی دینہم حتی یلقاہم فیلقی الیہم السلام فیقولون:لست مؤمنًا وقد القی السلٰم فیقتلونہ فقال اللّٰہ تعالٰی:
یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا-الٰی-تبتغون عرض الحیاۃ الدنیا
یعنی تقتلونہ ارادۃ ان یحل لکم مالہ الذی وجدتم معہ وذلک عرض الحیاۃ الدنیا فان عندی مغانم کثیرۃ-والتمسوا من فضل اللّٰہ۔
وہو رجل اسمہ مرداس،خلی قومہ ہاربین من خیل بعثہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیہا رجل من بنی لیث اسمہ قلیب-حتی اذا وصلت الخیل سَلَّمَ علیہم فقتلوہ فامر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاہلہ بدیتہ-ورد الیہم مالہ ونہی المؤمنین عن مثل ذلک)
(الدر المنثور فی التفسیر الماثور:جلددوم:ص634-مکتبہ شاملہ)
حدیث دوم:
(2)قال القرطبی:(حدثنا بشربن معاذقال،حدثنا یزید قال،حدثنا سعید عن قتادۃ قولہ:یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا، الاٰیۃ-قال:وہذا الحدیث فی شأن مرداس رجل من غطفان-ذکر لنا ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث جیشا علیہم غالب اللیثی الی اہل فدک-وبہ ناس من غطفان وکان مرداس منہم۔
ففر اصحابہ فقال مرداس-انی مؤمن وانی غیر متبعکم-فصبحتہ الخیل غدوۃ فلما لقوہ سلم علیہم مرداس-فرماہ اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقتلوہ واخذوا ما کان معہ من متاع فانزل اللّٰہ جل وعزفی شانہ-ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمنًا-لان تحیۃ المسلمین السلام-بہا یتعارفون وبہا یحیی بعضہم بعضا)
(تفسیر قرطبی:جلد9 ص77-مکتبہ شاملہ)
(الدر المنثور فی التفسیر الماثورجلددوم:ص634-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلام الٰہی (یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا)کی تفسیر میں فرمایا:یہ کلام قبیلہ غطفان کے ایک شخص مرداس کے بارے میں ہے۔ہمیں بتایا گیاکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اہل فدک کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا۔اس کے امیر غالب لیثی تھے۔فدک میں قبیلہ غطفان کے کچھ لوگ تھے،اور انہیں میں مرداس تھے،پس مرداس کے لوگ بھاگ گئے تو مرداس نے کہا:میں مومن ہوں اور میں تم لوگوں کے ساتھ جانے والا نہیں۔
پس گھوڑسواروں کا قافلہ صبح سویرے انہیں آلیا۔صحابہ کرام نے انہیں تیر مار کر ہلاک کردیا اور جو کچھ ان کے پاس مال ومتاع تھا،وہ لے لیے،پس اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمایا:(جو تمہیں سلام کرے،اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو)،اس لیے کہ مسلمانوں کی تحیت سلام ہے۔اسی کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں اور اسی کے ذریعہ ان میں سے بعض،بعض کو تحیت پیش کرتے ہیں۔
توضیح:منقولہ بالا دونوں حدیثوں سے واضح ہوگیا کہ سلام کرنا مسلمان ہونے کی علامت ہے۔ جب کوئی سلام کرے تو اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔ہاں،کوئی ظاہری علامت مسلمان ہونے کی مخالفت کرے تواس کا بھی لحاظ کیا جائے گا،مثلاً کوئی پنڈت جو زنار باندھے،ماتھے پر قشقہ لگائے اور دیگر علامتوں کے ساتھ ہوتو اسے مومن نہیں سمجھا جائے گا۔
اسلام کے قرن اول میں عرب میں ”السلام علیکم“ کہنا مسلمانوں کا ہی طریقہ تھا۔ دیگر اقوام کی تحیت وسلام کا طریقہ جداگانہ تھا،اس لیے یہ اسلامی تحیت قائل کے مسلم ہونے کی علامت اور دلیل تسلیم کی جائے گی۔یہ شبہہ کہ اپنی جان کے خوف سے اس نے اسلام ظاہر کیا ہوتو اس شبہہ کے سبب اس کوکافر نہیں کہا جاسکتا۔
حدیث سوم:
(3)قال السیوطی:(اخرج ابن ابی حاتم والبہیقی فی الدلائل عن الحسن:ان ناسا من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذہبوا ینطرقون فلقوا اناسا من العدو فحملوا علیہم فہزموہم فشد رجل منہم فتبعہ رجل یرید متاعہ فلما غشیہ بالسنان-قال:انی مسلم،انی مسلم۔
فاوجرہ السنان فقتلہ واخذ متیعہ فرفع ذلک الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للقاتل:أ قتلتہ بعد ان قال انی مسلم؟قال:یا رسول اللّٰہ! انما قالہا متعوذًا-قال:أ فلا شققت عن قلبہ؟قال:لم یا رسول اللّٰہ؟ قال:لتعلم أ صادق ہو او کاذب! قال:وکنت عالم ذلک یا رسول اللّٰہ! قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:انما کان یعبر عنہ لسانہ-انما کان یعبر عنہ لسانہ-الحدیث)
(الدر المنثور فی التفسیر الماثور:جلددوم:ص635-مکتبہ شاملہ)
توضیح:حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زبان یعنی اس آدمی کا اقرار ایمان کو ظاہر کررہا ہے۔یہی اقرار ہی ایمان کا معیار ہے۔اسی طرح کفر کا اقرار کفر کی علامت ہے۔ دل کی کیفیت پرنہ ہم مطلع ہیں،نہ ہمیں قلبی کیفیت کی جانکاری کا مکلف بنایا گیا،پس جو ایمان کا اقرار کرے،ہم اسے مومن تسلیم کریں گے۔
حدیث چہارم:
(4)(عن اسامۃ بن زید قال:بعثنا رسول االلّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سریۃ الی الحرقات،فنذروا بنا فہربوا- فادرکنا رجلا فلما غشیناہ،قال:لا الہ الا اللّٰہ فضربناہ حتی قتلناہ فذکرتُہ للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
فقال:من لک بلا الٰہ یوم القیامۃ؟ فقلت:یا رسول اللّٰہ! انما قالہا مخافۃ السلاح۔قال:ا فلا شققت عن قلبہ حتی تعلم،من اجل ذلک قالہا ام لا-من لک بلا الٰہ الا اللّٰہ یوم القیامۃ-فما زال یقولہا حتی وددت انی لم اسلم الا یومئذ)(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)
ترجمہ:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں (قبیلہ جہینہ کے) قبیلہ حرقات کی طرف ایک سریہ میں بھیجا،پس وہ لوگ ہماری آمد کا احساس کرکے بھاگ گئے تو ہم نے ان میں سے ایک آدمی پالیا، پس جب ہم نے اس پر حملہ کیا تو اس نے کہا:لا الہ الا اللہ،تو ہم نے اسے مارا،یہاں تک کہ ہم نے اسے ہلاک کر دیا، پھر میں نے اس کا ذکر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کیا۔
پس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تیرے لیے قیامت کے دن ”لاالہ الا اللہ“کے بالمقابل کون ہوگا؟میں نے عرض کی۔یارسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے ہتھیار کے خوف سے ایسا کہا۔آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:کیوں تم نے اس کا دل نہیں چیرا،تاکہ تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس نے خوف کی وجہ سے کہا یا نہیں! تیرے لیے قیامت کے دن ”لاالہ الا اللہ“کے بالمقابل کون ہوگا؟حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسے کہتے رہے،یہاں تک کہ میری خواہش ہوئی کہ آج ہی میں اسلام لاتا۔(کیوں کہ اسلام کے سبب ماقبل اسلام کے جرائم وگناہ معاف ہوجاتے ہیں)
توضیح:منقولہ بالا حدیث شریف میں ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک سریہ میں گئے۔مخالف لوگ لشکر اسلامی کو دیکھ کربھاگ کھڑے ہوئے۔ایک آدمی بھاگ نہیں سکا،وہ گرفت میں آگیا۔اب اسے اپنی موت نظر آنے لگی۔جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر حملہ کا ارادہ فرمایا تواس نے کلمہ اسلام پڑھ لیا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھے کہ یہ آدمی صرف اپنی جان بچانے کے واسطے اسلامی کلمہ پڑھ رہا ہے،اس لیے انہوں نے اسے قتل کردیا۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کی۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس واقعہ پرسخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کیا:یا رسول اللہ!(علیہ الصلوٰۃو السلام) اس آدمی نے صرف قتل کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب میں ارشادفرمایا کہ تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے کہ وہ قتل کے خوف سے کلمہ پڑ ھا تھا،یا نہیں؟
اس حدیث مبارک سے واضح ہوگیا کہ کوئی آدمی ہمارے سامنے اسلامی کلمہ پڑھ لے تو اسے مومن ماننا ہوگا۔شریعت کا حکم ظاہر پر ہوتا ہے۔
اگر کوئی اپنے دل میں کفر چھپاکر رکھا ہے تو وہ عند اللہ کافر ہوگا۔ہمیں اس کے ظاہر کے اعتبار سے مومن ماننا ہوگا،جب تک کہ اس سے اسلام کے منافی کوئی قول یافعل صادر نہ ہو۔ابتدائی عہد میں منافقین کومومن سمجھا جاتا تھا،پھر حکم الٰہی کے بعد ان کوالگ کیا گیا۔
چوں کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کافر سمجھ کرقتل کیا اور اس نے پہلے ایمان کا اظہار نہیں کیا،بلکہ جب اپنی موت دیکھا، تب کلمہ پڑھا۔اس سے یہی متبادر ہے کہ اس نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھا،اسی لیے یہاں دیت کا حکم نہیں ہوا،بلکہ صرف یہ سخت حکم بتایا گیا کہ ایسے موقع پر بلاتحقیق کوئی کاروائی نہ ہو،تاکہ آئندہ ایسے موقع پر قتل سے پرہیز کیا جائے۔
قال الخطابی فی شرح الحدیث:(فیہ من الفقہ ان الکافر اذا تکلم بالشہادۃ-وان لم یصف الایمان وجب الکف عنہ والوقوف عن قتلہ- سواء کان بعد القدرۃ علیہ او قبلہا۔
وفی قولہ:ہلا شققت عن قلبہ دلیل علی ان الحکم انما یجری علی الظاہر-وان السرائر موکولۃ الی اللّٰہ سبحانہ۔
وفیہ انہ لم یلزمہ مع انکارہ علیہ الدیۃ-ویشبہ ان یکون المعنی فیہ ان اصل دماء الکفار الاباحۃ-وکان عند اسامۃ انہ انما تکلم بکلمۃ التوحید مستعیذا من القتل،لا مصدقا بہ-فقتلہ علی انہ کافر مباح الدم-فلم تلزمہ الدیۃ-اذ کان فی الاصل مامورًا بقتالہ-والخطاء عن المجتہد موضوع۔
ویحتمل ان یکون قد تأول فیہ قول اللّٰہ:(فلم یک ینفعہم ایمانہم لما رأوا)(غافر:85)وقولہ فی قصۃ فرعون:(الاٰن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین)(یونس:۱۹)فلم یخلصہم اظہار الایمان عند الضرورۃ والارہاق من نزول العقوبۃ بساحتہم ووقوع بأسہ بہم)
(معالم السنن:جلددوم:ص14-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:امام خطابی نے حدیث کی شرح میں رقم فرمایا:اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ کافر جب کلمہ شہادت بولے،اگر چہ وہ ایمان سے متصف نہ ہوتو بھی اس سے رک جاناہے، اور اس کے قتل سے توقف کرنا ہے، خواہ اس پر قدرت کے بعد کلمہ پڑھا ہو، یا قدرت سے قبل۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان:(ہلا شققت عن قلبہ) میں اس بات پر دلیل ہے کہ حکم شریعت ظاہر پر جاری ہوتا ہے اور پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ کے سپردہوتے ہیں۔
اس حدیث میں یہ فقہ بھی ہے کہ اس آدمی کے انکار کفر کے باوجود(اس کے قتل پر) حضرت اسامہ بن زید پر دیت کا حکم لازم نہیں ہوا۔
ممکن ہے کہ اس کا سبب یہ ہوکہ (حربی) کفار کے خون کا حلال ہونا اصل ہے،اور حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ بات تھی کہ اس نے قتل سے پناہ طلب کرنے کے واسطے کلمہ توحید بولا، نہ کہ کلمہ اسلام کی تصدیق کے طورپر،پس انہوں نے اس بنیاد پر قتل کیا کہ وہ کافر حربی مباح الدم تھا تو ان پر دیت لازم نہیں آئی،کیوں کہ وہ اصل میں اس سے قتال پر مامور تھے،اور مجتہد کی خطا معاف ہوتی ہے۔
اور یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کافر کے بارے میں فرمان الٰہی (فلم یک ینفعہم ایمانہم لما رأوا)کی تاویل کی ہو، اور فرعون کے قصہ میں (الاٰن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین)کی تاویل کی ہو،پس ضرورت اور مصیبت کے وقت ایمان کا اظہار ان پر عذاب نازل ہونے اور ان پر اللہ کا عذاب طاری ہونے سے نہ بچاسکا۔(اسی طرح حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کے وقت قبول ایمان کو غیر معتبر قراردیا ہو، اور اسے قتل کردیا ہو)
حدیث پنجم:
(5)(عن المقداد بن الاسود انہ اخبرہ انہ قال:یا رسول اللّٰہ! أ رأیت ان لقیت رجلا من الکفار فقاتلنی فضرب احدی یدی بالسیف ثم لاذ منی بشجرۃ فقال:اسلمت لِلّٰہ أ فاقتلہ یا رسول اللّٰہ بعد ان قالہا؟قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-لا تقتلہ-فقلت:یا رسول اللّٰہ! انہ قطع یدی۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:لا تقتلہ-فان قتلتہ فانہ بمنزلتک قبل ان تقتلہ-وانت بمنزلتہ قبل ان یقول کلمتہ التی قال)
(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)
ترجمہ:حضرت مقدادبن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ کیا ارشادفرماتے ہیں کہ اگر میں کفار میں سے کسی شخص سے ملوں،وہ مجھ سے جنگ کرے،پس وہ میرے ایک ہاتھ کو تلوار سے کاٹ دے،پھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے،پس کہے کہ میں نے للہ اسلام قبول کیا تو کیا میں ایسا کہنے کے باوجود اسے قتل کردوں، یا رسول اللہ؟(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اسے قتل نہ کر و۔میں نے عرض کی۔یا رسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اس نے میرے ہاتھ کوکاٹ دیا۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اسے قتل نہ کر و،پس اگر تم نے اسے قتل کردیا تووہ تمہاری منزل میں ہے، تمہارا اس کو قتل کرنے سے قبل، اور تم اس کی منزل میں ہو،اس کے اس کلمہ کہنے سے قبل جسے اس نے کہا۔
توضیح:اگر مومن نے کلمہ پڑھنے والے کوقتل کردیا تو وہ کلمہ پڑھنے والااس مومن کی منزل میں ہوگا،یعنی اس کا خون محفوظ ہوگا،اوراس کے قتل پرقصاص یا دیت کا حکم ہوگا،جیسے اس کلمہ خواں کے قتل سے قبل اس مومن کی حالت تھی کہ اس کا خون محفوظ تھا۔
اور مومن قاتل اس کلمہ خواں کی منزل میں ہے،اس کی کلمہ خوانی سے قبل جو اس کی حالت تھی کہ اس کاخون محفوظ نہیں تھا،یعنی اب قتل کے بعد اس مومن کا خون محفوظ نہیں،بلکہ قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا،یا شبہہ کے سبب اسے دیت دیناہوگا۔
قال ابو سلیمان الخطابی فی شرحہ:(وانما وجہہ انہ جعلہ بمنزلتہ فی اباحۃ الدم-لان الکافر قبل ان یسلم مباح الدم بحق الدین-فاذا اسلم، فقتلہ قاتل،فان قاتلہ مباح الدم بحق القصاص)
(معالم السنن:جلددوم:ص15-مکتبہ شاملہ)
تر جمہ:اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مومن کو اس کافر کی منزل میں کردیا خون کے مباح ہونے کے سلسلے میں، اس لیے کہ کافر اسلام قبول کرنے سے قبل دین کفر کے سبب اس کا خون مباح تھا، پس جب وہ اسلام قبول کرلے،پھر اسے کوئی قاتل قتل کردے تو اس کے قاتل کا خون حق قصاص کے سبب مباح ہے۔
حدیث ششم:
(6)(عن جریر بن عبد اللّٰہ قال:بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سریۃ الٰی خثعم فاعتصم ناس منہم بالسجود فاسرع فیہم القتل- قال:فبلغ ذلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فامر لہم بنصف العقل-وقال: انا بری من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین-قالوا: یا رسول اللّٰہ:لم؟ قال:لا ترأی ناراہما)(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)
قال ابو سلیمان الخطابی فی شرحہ:(قلت:انما امرلہم بنصف العقل ولم یکمل لہم الدیۃ بعد علمہ باسلامہم،لانہم قد اعانوا علٰی انفسہم بمقامہم بین ظہرانی الکفار-فکانوا کمن ہلک بجنایۃ نفسہ وجنایۃ غیرہ-فسقط حصۃ جنایتہ من الدیۃ۔
واما اعتصامہم بالسجود فانہ لا یمحص الدلالۃ علٰی قبول الدین- لان ذلک قد یکون منہم فی تعظیم السادۃ والرؤساء فعذروا لوجود الشبہ
وفیہ دلیل علٰی انہ اذا کان اسیرًا فی ایدیہم فامکنہ الخلاص والانقلاب منہم،لم یحل لہ المقام معہم)
(معالم السنن:جلددوم:ص16-مکتبہ شاملہ)
قال الخطابی:(وقولہ:لا ترایا ناراہما:فیہ وجوہ-احدہا،معناہ لا یستوی حکماہما-قالہ بعض اہل العلم-وقال بعضہم:معناہ ان اللّٰہ قد فرق بین داری الاسلام والکفر فلا یجوز لمسلم ان یساکن الکفار فی بلادہم حتی اذا اوقدوا نارا کان منہم بحیث یراہا)
(معالم السنن:جلددوم:ص16-مکتبہ شاملہ)
دلیل ششم:خبر متواتر-افراد کا ثبوت خبرمتواتر کے ذریعہ:
حضورغوث اعظم،حضور خواجہ غریب نواز،حضور نظام الدین اولیا و حضرات اولیا ئے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کا ذکر نہ صریح طورپر قرآن مجید میں ہے،نہ ہی احادیث میں مبارکہ میں،نہ ہی اجماع متصل میں،کیوں کہ یہ نفوس قدسیہ وصال نبوی کے مدتوں بعد پیدا ہوئے اور وصال نبوی سے قبل قرآن مجید مکمل ہوگیا اور وصال مبارک کے سبب حدیث شریف کا سلسلہ بھی تمام ہو گیا،اسی طرح اجماع متصل کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔
ان اولیائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کوامت مسلمہ، مومن کامل اور ولی تسلیم کرتی ہے تو یہ خبر متواتر کے سبب ہے۔ان نفوس قدسیہ کے مومن اورولی ہونے کی خبر متواتر ہے،جیسے سکندر کے بادشاہ اورفاتح عالم ہونے،رستم کے بہادر ہونے،حاتم طائی کے سخی ہونے،چنگیز خاں وتاتاری قوم کے ظالم وجابر ہونے کی خبریں متواتر ہیں۔
خبر متواتر کا لحاظ شریعت اسلامیہ میں اس قدر ہے کہ جو اموردینیہ تواتر کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہیں،وہ ضروریات دین ہیں۔ ان کا انکار کفر ہے، جب کہ خبر واحد سے مروی ہونے والے امور کا انکارکفر نہیں۔
اس سے واضح طورپرثابت ہوتا ہے کہ شریعت میں خبر متواتر کارتبہ بہت بلند ہے۔ جب ضروریات دین کا ثبوت خبرمتواتر سے ہوتا ہے توکسی فرد کی فردیت کا ثبوت خبر متواتر سے کیوں کرنہیں ہوگا۔ دین کے اعلیٰ درجہ کے امور مثلاً قرآ ن مجید،احادیث متواترہ،اجماع متصل خبرمتواتر کے ذریعہ ہمیں موصول ہوئے۔خبر متواتر شریعت اسلامیہ میں معتبر ایک قوی دلیل ہے۔
الحاصل خبر متواتر اورحواس ظاہر ہ سے موضوع کلی کے افرادکی فردیت کا قطعی ویقینی علم حاصل ہوگا،پھر ان افراد پر قاعدہ کلیہ کے محمول کا حمل واطلاق ہوگا۔
خبرمتواتر اور حواس ظاہرہ
خبرمتواتر اور حواس ظاہر ہ سے کسی کے ایمان وکفر کا یقین عہد نبوی میں بھی حاصل ہوگا۔ ہاں،اس عہد میں مزید دو دلیل ہوگی،جوبعد وصال نبوی منقطع ہوگئی،یعنی قرآن وحدیث۔ منافقین مدینہ کے کفر کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا اورپھرحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے بھی انہیں منافق قرار دے کر مسجد نبوی سے نماز جمعہ کے وقت مسجد سے باہر نکال دیا۔اس طرح ان کے منافق ہونے کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں ہوگیا۔
جب وصال نبوی سے قبل قرآن مجیدمکمل اور وصال نبوی کے سبب حدیث نبوی منقطع ہوگئی تو خبر متواتر اورحواس ظاہرہ سے کسی خاص شخص کے مومن وکافر ہونے کا تعین ہوگا۔اجماع متصل سے بھی مومن وکافر کا قطعی تعین ہوگا۔
اجماع متصل کا ماخذدراصل قول نبوی ہوتا ہے۔اب کسی جدید امر پراجماع متصل کا سوال نہیں۔
(1)قال ابو الشکور السالمی:(ان المؤمن اذا آمن مرۃً فانہ یحکم بایمانہ-ولو اقربعد ذلک الوفًا-فان الایمان ہو الاقرار الاول-وما سوی ذلک ہوتکرار عنہ-ولو لم یقل الا مرۃً واحدۃً وعاش سنین-فانہ لا یحکم بکفرہ ما لم یظہر منہ ضدہ-ولو مات علٰی ذلک فانہ یصلی علیہ ویکون مؤمنا اذا لم یظہر الخلاف منہ)(تمہید ابوشکور سالمی: ص115)
ترجمہ:مومن جب ایک بار ایمان لایا تو اس کے مومن ہونے کا حکم دیا جائے گا، اگرچہ اس کے بعد ہزار مرتبہ اقرار کرے کہ پہلا اقرار ہی ایمان ہے اوربعد کے اقرار اسی پہلے اقرار کی تکرار ہیں،اوراگر ایک مرتبہ اقرار کرنے کے بعد پھر کبھی اقرار نہ کیا تو اگرچہ برسوں زندہ رہا تو اس کے کفر کاحکم نہیں دیا جائے گا،جب تک ایمان کی ضد ظاہر نہ ہو،اور اگر اسی اقرار پر مرجائے تو اس کومومن قرار دیا جائے گا اوراس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جب تک ایمان کے خلاف کوئی بات اس سے ظاہرنہ ہو۔
(2)قال ابو الشکور السالمی:(ثم الاعمال منہا ما یوجب حکم الایمان بہ کاصل الایمان-وہو ان الکافر اذا صلی بالجماعۃ او حضر العیدین او الجمعۃ وصلی مع الناس ا اذن او اقام او حج مع المسلمین فانہ یحکم باسلامہ-ولو رجع الی الکفر یحکم بردتہ۔
ولو صلی وحدہ لا یکون مسلما۔
وکذلک المسلم لو سجد لاصنام او تابع الکفار بفعل من افعالہم التی یکون دینًا عندہم فانہ یصیر کافرا-وکذلک لو ظہر من نفسہ علامۃ الکفار کلبس القلنسوۃ المجوسیۃ والعلی والزنار ونحوذلک فانہ یصیر کافرًا سواء فعل من غیر اعتقاد او سخریۃ او من اعتقاد-ولوفعل تقیۃ او مکرہًا فانہ لا یصیر کافرًا-و کذلک لولبس لباس الکفار مما لا یکون علامۃ الکفر-واقتدی بسیرتہم التی لا یکون دینا عندہم-وانما یکون لہوًا واختراعًا فانہ لا یحکم بکفرہ-وہذا کلہ بمعنی-وہو ان الاعتقاد علٰی شیء شرط لصحۃ ذلک علی الحقیقۃ-وکل عمل یدل علی الاعتقاد فانہ یعمل عمل الاعتقاد-وکل عمل یحتمل الشبہۃ فانہ لا یدل علی الاعتقاد)(تمہید ابی الشکور السالمی ص105)
ترجمہ:پھر اعمال بعض وہ ہیں جن کے کرنے سے ایمان کا حکم کیا جائے گا،اوروہ یہ ہیں کہ کافر جب جماعت سے نماز پڑھے اور جمعہ میں حاضر ہو،اورعیدین میں حاضر ہو،اور مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرے اور اذان دے،اقامت کہے،مسلمانوں کے ساتھ حج کرے تو ان اعمال سے اس کے مسلمان ہونے کا حکم کیا جائے گا،اور اگر کفر کی طرف لوٹا تو ارتداد کا حکم کیا جائے گا،اور اگر تنہا پڑھے تو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔
اورایسے ہی اگر مسلمان بت کوسجدہ کرے، یاافعال کفار میں سے کسی فعل میں کافروں کی پیروی کرے،اور وہ فعل کافروں کا دینی فعل ہو تو کافر ہوجائے گا،اورایسے ہی اگر اپنی طرف سے کفارکی علامت ظاہر کرے، جیسے مجوسیوں کی ٹوپی پہنے یا زنار،جنیو وغیرہ باندھے جو کفار کی علامت ہوتو کافر ہوجائے گا،پھریہ اعتقاد کے ساتھ پہنے یا بغیر اعتقاد کے،یاسخریہ اور مذاق کے طورپر تو کافر ہوجائے گا۔
اوراگرتقیہ کے طور پر یا مجبور کرنے کے سبب کفار کی علامت کو اختیار کیا تو کافر نہ ہوگا، اور اگر کفار کا ایسا لباس پہنا جوکفر کی علامت نہیں،اور ان کی عادت وخصلت کواختیار کیاجوان کا دین نہیں ہے،بلکہ وہ لہواور اختراع کے طورپر ہوتوکفر کا حکم نہیں دیا جائے گا۔
یہ تمام اس معنی کی بنیاد پر ہے کہ دراصل کسی امر کا اعتقاد اس امر کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے، اورہروہ امرجو اعتقاد پر دلالت کرے، وہ بھی اعتقاد کا کام کرتاہے، اورہر وہ عمل جوشبہہ کا احتمال رکھتا ہے،وہ اعتقاد پردلالت نہیں کرتا ہے۔
(3)قال ابو الشکور السالمی:(حکم الایمان العدالۃ وموجب الایمان الجنۃ باخباراللّٰہ تعالٰی،اذاکان مقرونًا بالتصدیق-ولو اقر باللسان ولم یعتقد بالجنان فانہ یحکم باسلامہ ویجری علیہ احکام المسلمین ما لم یظہر علیہ خلاف ذلک-لقولہ تعالی:ولا تقولوا لمن القی الیکم السلٰم لست مؤمنًا،یعنی اذا قال:السلام علیکم،انی مؤمن فانہ یقبل قولہ حکمًا- فاما اذا لم یعتقد فانہ لا یکون من اہل الجنۃ-ویکون حکمہ کاحکام المنافقین) (تمہید ابی الشکور السالمی: ص104)