تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
قسط دوم میں بیان کیا گیا کہ قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افراد کا تعین دلائل ستہ سے ہو گا۔قسط سوم میں بعض متعلقہ امور کی وضاحت مرقوم ہے۔
کلی کا حکم تمام افرادکے لیے
جو حکم کلی کے لیے ہوتا ہے،وہی حکم اس کلی کے تمام افرادکے لیے ہوتا ہے،مثلاً انسان حیوان ناطق ہے۔انسان ایک کلی ہے،اور انسان حیوان ناطق ہے توانسان کے تمام افراد یعنی زید،بکر،خالد،حامد وغیرہم سب کے سب حیوان ناطق ہوں گے۔
اسی طرح جب بت پر ست کافر ہوتا ہے،اوربت پرست ایک کلی ہے تو اس کلی کے تمام افرادکافر ہوں گے۔ایسا نہیں کہ بعض کافر ہوں،اوربعض کافر نہ ہوں۔
افرادوجزئیات اورامثال ونظائر میں فرق:
سوال:فقہائے کرام کسی حکم کی علت کا استنباط کرکے ایک شئ کا حکم دوسری اشیا کے لیے ثابت کر تے ہیں،لیکن یہ اجتہادی احکام ظنی ہوتے ہیں۔ قطعی نہیں ہوتے اور حکم اصلی کبھی قطعی ہوتا ہے اور کبھی ظنی ہوتا ہے،مثلاً شراب قطعی طورپر حرام ہے،اوراس کی حرمت ضروریات دین میں سے ہے۔ اس کی حرمت کا انکار کفر ہے۔
فقہائے کرام نے شراب کا مسکرہونایعنی نشہ آور ہونا حرام ہونے کی علت بتائی، پھر مثلاً اسی علت کی بنیاد پر بھنگ وچرس کو حرام قرار دیا جائے تو بھنگ وچرس کی حرمت قطعی نہیں ہوگی اورنہ ہی ضروریات دین میں سے ہوگی۔
اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہو،لیکن اس کے موضوع کے افراد وجزئیات پر اس کے محمول کا اطلاق ضروریات دین میں سے نہ ہو، کیوں کہ ان افراد کی فردیت کا ثبوت ضروریات دین کے دلائل اربعہ سے نہیں ہواہے؟
جواب:فقہائے کرام قیاس واجتہاد کے ذریعہ ایک شئ کا حکم اس کے امثال ونظائر کے لیے ثابت کرتے ہیں۔امثال ونظائر اور افراد وجزئیات میں بہت فرق ہے۔ قاعدہ کلیہ میں جو حکم کلی کے لیے ہوتا ہے،وہ حکم اس کے افراد وجزئیات کے لیے ہوتا ہے۔وہ حکم حقیقت کلیہ کے لیے نہیں ہوتا ہے۔
قضیہ طبعیہ میں حقیقت کلیہ کے لے حکم ہوتا ہے، جیسے انسان نوع ہے،پس انسان کے افراد نوع نہیں ہیں،بلکہ انسان کی طبعیت کلیہ نوع ہے۔
قضیہ کلیہ میں افرادہی کے لیے حکم ہوتاہے،جیسے ہر بت پرست کا فر ہے۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو بھی اس کے موضوع (بت پرست)کا فرد ہے،وہ کافر ہے۔
امثال ونظائر کا معاملہ یہ ہے کہ فقہائے کرام شرعی احکام کی علت از خود دریافت کرتے ہیں،پھر جہاں وہ علت پائی جاتی ہے،وہاں اس اصل کا حکم ثابت کرتے ہیں۔
اب یہاں یہ بات قابل غورہے کہ فقہائے مجتہدین نے جس امر کو حکم کی علت بتایا ہے،کیا وہی اس حکم کی قطعی علت ہے؟
فقہائے کرام نے اپنے اجتہاد سے ایک علت تسلیم کر لیا ہے، یہ علت ظنی ہے۔ممکن ہے کہ وہ علت نہ ہو۔اسی بنیاد پر قطعی نصوص میں مقیس علیہ کے لیے منصوص حکم قطعی ہوتا ہے، اور قیاس واجتہاد کے ذریعہ امثال ونظائر کامستنبط حکم ظنی ہوتا ہے۔
کیا حکم کی علت منصوص ہوتی ہے؟
ملااحمد جیون نے رقم فرمایا:(اما النص الدال علی کون الوصف علۃ صریحا فغیر وارد)(نورالانوار: جلد دوم: ص280 -دارالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ:لیکن نص جو وصف کے علت ہونے پر صراحت کے ساتھ دلالت کرے،پس غیر وارد ہے۔(ایسی نص وارد نہیں ہے)
دوسری بات یہ کہ قیاس کی حجیت بھی ضروریات دین سے نہیں،پھر اس سے ثابت ہونے والا کوئی امر ضروری دینی کیسے ہو سکتا ہے۔
قال الملا احمد جیون الجونفوری فی بحث حکم العلۃ:
((والرابع من جملۃ ما یعلل لہ تعدیۃ حکم النص الٰی ما لا نص فیہ لیثبت فیہ)ای الحکم فیما لا نص فیہ بغالب الرأی،دون القطع والیقین)
(نورالانوار: جلد دوم: ص286 -دارالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ:ان میں سے چوتھی بات جس کے لیے علت بیان کی جاتی ہے،وہ نص کے حکم کو متعدی کرنا ہے،اس تک جس بارے میں نص نہ ہو،تاکہ اس میں حکم کوثابت کیا حائے، یعنی جس کے بارے میں نص نہ ہو،ظن غالب کے طورپر،نہ کہ قطع ویقین کے طورپر۔
توضیح:قرآن مجیدکی قطعی الدلالت آیت میں مقیس علیہ کا حکم بیان کیا جائے تو مقیس علیہ کا حکم قطعی ہوگا،جیسے شراب کی حرمت قطعی ہے، کیوں کہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت نص میں شراب کوحرام قرار دیا گیا تو شراب کی حرمت قطعی ہوگئی،اور قیاس کے ذریعہ علت سکر کے سبب دیگر نشہ آور چیزوں کوحرام قرار دیا جائے تو ان چیزوں کی حرمت ظنی ہو گی۔یہا ں شراب مقیس علیہ اور دیگر امور مقیس ہیں۔
جس طرح آیت قرآنیہ قطعی بالمعنی الاخص میں مقیس علیہ کاحکم بیان ہونے کے سبب وہ حکم قطعی اورضروریات دین میں سے ہوتاہے۔ اسی طرح ضروری دینی قاعدہ کلیہ میں بیان کردہ حکم،موضوع کے افراد وجزئیات کے لیے قطعی اور ضروری دینی ہوتا ہے۔
دراصل قضیہ کلیہ میں کلی کے لیے جوحکم بیان ہوتا ہے،وہ اس کے افراد کے لیے بیان کیا جاتا ہے، جیسے کہا جائے کہ ہر پتھر جسم ہے تو اس کا مفہوم یہی ہے کہ پتھرکے افرا دجسم ہیں، نہ ہی لفظ پتھر جسم ہے،اورنہ ہی لفظ پتھرکا مفہوم جسم ہے،بلکہ پتھر کے افراد جسم ہیں۔
اشخاص اربعہ کا کافر ہونا ضروری دینی کیسے؟
سوال: اشخاص اربعہ کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا،کیوں کہ ضروریات دین کے دلائل سے ان لوگوں کا کافرہونا ثابت نہیں؟نہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت سے،نہ قطعی الدلالت حدیث متواتر سے،نہ اجماع متصل سے؟
جواب:اشخاص اربعہ میں سے ہرایک کا کافر ہونا کسی قاعدۂ کلیہ کے سبب ہے،اور وہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔
اشخاص اربعہ کاخبرمتواتر اورحواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افرادہونا ثابت ہے۔یہ قواعد کلیہ ضروریات دین میں سے ہیں اور ان کے موضوع کلی کے لیے کفر کلامی کاحکم ہے تو اشخاص اربعہ کے لیے بھی قطعی طورپر کفرکلامی کا حکم ثابت ہوگا، کیوں کہ جوحکم موضوع کلی کا ہوگا،وہی حکم اس موضوع کے تمام افراد کے لیے ہوگا۔
اس کی کچھ تفصیل محررہ ذیل ہے۔
ہر منکرختم نبوت کا فر ہے۔یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔
اس قاعدہ کلیہ سے قاسم نانوتوی کا کفر ثابت ہوتا ہے۔
خبر متواتر اور حواس ظاہرہ کے ذریعہ نانوتوی کا منکر ختم نبوت ہونا ثابت ہوتا ہے،
اور ہر منکر ختم نبوت کافر ہے تو نانوتوی کافر ہے۔
تواتر وحواس ظاہرہ سے نانوتوی کے انکار ختم نبوت کا ثبوت:
قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس میں ختم نبوت کی عبارتیں موجود ہیں۔کتاب کی نسبت نانوتوی کی طرف متواتر ہے، پس تواتر کے ساتھ نانوتوی کا انکار ختم نبوت ثابت ہوگیا۔
دہلی کے مناظرہ میں نانوتوی نے بھی اس نسبت کو تسلیم کیا اور کتاب کی عبارتوں پر وارد ہونے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔
قاسم نانوتوی سے دہلی میں علامہ محمدشاہ پنجابی نے مناظرہ فرمایا تھا۔ مناظرہ میں اس نے ختم نبوت کا انکار کیا،جس کو حاضرین نے اپنے کانوں سے سنا اور نانوتوی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراسے پہچانا، پس حاسہ سمع وبصر سے بھی نانوتوی کاختم نبوت کا انکار کرناثابت ہوگیا۔
اس طرح خبرمتواتر اور حاسہ سمع وبصر سے نانوتوی کا منکر ختم نبوت ہونا ثابت ہوگیا، اور ختم نبوت کامنکر کا فر ہے،لہٰذانانوتوی کافر ہے۔
تواتر وحواس ظاہرہ سے گنگوہی،انبیٹھوی وتھانوی کی تنقیص کا ثبوت:
ہر گستاخ رسول کافر ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اسی قاعدہ کلیہ سے گنگوہی،انبیٹھوی اور تھا نوی کا کافرہونا ثابت ہوتا ہے۔فتویٰ کذب میں گنگوہی سے ضروری دینی کا انکار صریح بھی واقع ہواہے،اوراللہ تعالیٰ کی شان میں بے ادبی بھی۔
خبر متواتر کے ذریعہ ان تینوں کامذکورہ بالاقاعدہ کلیہ کے موضوع کا فرد ہوناثابت ہوا اور ان کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے قرارپایا۔
ان تینوں میں سے انبیٹھوی نے بہاول پور میں علامہ غلام دستگیرقصوری سے مناظرہ بھی کیا تھا۔یہ تحریری مناظرہ تھا۔اگر تقریری مناظرہ ہوتا،جیسے نانوتوی کا مناظرہ دہلی میں تھا تو حواس ظاہرہ سے بھی بے ادبی کا ثبوت ہوجاتا تھا۔
خلیل احمدانبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گستاخی کی۔ اس پر تائیدی تحریر رشیداحمد گنگوہی نے لکھی،پھر گنگوہی کے حکم پر خلیل احمد انبیٹھوی دیگر دیوبندیوں کے ساتھ مناظرہ کے واسطے بہاول پور پہنچا۔
انبیٹھوی نے اپنی کتاب اوراپنی عبارتوں کو تسلیم کیا،پھر اپنی عبارتوں کی باطل تاویل کی۔اس نے اپنی کتاب یااپنی عبارتوں کا انکار نہیں کیا۔ مناظرہ میں انبیٹھوی نے توہین وبے ادبی کی عبارت کواپنی عبارت تسلیم کرتے ہوئے اس کی تاویل کی۔
انبیٹھوی کی کتاب براہین قاطعہ میں بے ادبی کی عبارتیں موجود ہیں۔کتاب کی نسبت انبیٹھوی کی طرف متواتر ہے۔ بہاول پور کے مناظرہ میں انبیٹھوی نے بھی اس نسبت کو تسلیم کیا اور کتاب کی عبارتوں پر وارد ہونے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس طرح خبر متواتر اورانبیٹھوی کے اقرار کے ذریعہ انبیٹھوی کی بے ادبی ثابت ہوگئی۔
تھانوی کی طرف حفظ الایمان کی نسبت تواتر کے ساتھ ہے۔حفظ الایمان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی ہے۔تھا نوی نے اپنی کفریہ عبارت کی تاویل وتبدیل کے لیے بسط البنان اور تغییر العنوان لکھی۔ دیابنہ نے آج تک انکار نہیں کیا کہ یہ کتابیں ہمارے اکابر کی نہیں ہیں،بلکہ وہ آج تک ان کفریہ عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں، اور ان عبارتوں پر اہل سنت وجماعت سے مناظرہ ومباحثہ کرتے ہیں۔
کیا جہات محتملہ کی تحقیق میں خطا نہیں ہوسکتی؟
سوال:کفر کلامی کا حکم اس وقت عائد ہوتا ہے،جب کلام،کفری معنی میں مفسر ومتعین ہو،یاقائل کے بیان قطعی سے مفسر ومتعین ہو جائے۔
نانوتوی کے کلام کو ختم نبوت کے انکارکے سلسلے میں مفسر تسلیم کیا گیا،اسی طرح گنگوہی،انبیٹھوی وتھا نوی کے کلام کوبے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا گیا۔
مفسر تسلیم کرنے والے علما نے اپنی تحقیق کی روشنی میں ان عبارتوں کوانکارختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا۔ ہر تحقیق کی طرح اس تحقیق میں بھی خطا کا امکان ہے، ممکن ہے کہ وہ عبارتیں انکار ختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر نہ ہوں؟
جواب:ضروریات دین کا ثبوت عقل صحیح، قطعی الدلالت آیت قرآنیہ، قطعی الدلالت حدیث متواتر اور اجماع متصل سے ہوتا ہے۔ ضروریات دین کے باب میں قطعی الدلالت سے مراد مفسر ہے۔ آیات قرآنیہ واحادیث متواترہ کے مفسر ومحکم اور نص وظاہر ہونے کی صراحت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں موجود نہیں۔مفسر ومحکم اورنص وظاہر ہونے کا تعین مجتہد ین ومحققین کی تحقیق سے ہوتا ہے۔
یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ کسی آیت کو مفسر بتانے میں خطا ہوگئی ہو، پھر جب وہ آیت مفسر نہیں رہی تواس سے ثابت ہونے والا امر ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا۔جواب یہ ہے کہ جن آیات واحادیث متواترہ کو مفسر تسلیم کیا گیا ہے۔ان سے ثابت ہونے والے امور کو ضروریات دین ہی میں تسلیم کیا جاتا ہے۔آج تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسر کے تعین میں خطا ممکن ہے، لیکن یہ تعین محال نہیں ہے۔اس کے تعین کا خاص طریقہ موجود ہے،یعنی جس میں احتمال بلادلیل بھی نہ ہو،وہ مفسر ہے۔
تفہیم مسئلہ کے واسطے دومثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
(1) گلاس میں پانی ہے یانہیں۔آنکھوں سے دیکھ کر کے ثبوت یانفی کا تعین کیا جاسکتا ہے اوریہ تعین یقینی ہوگا۔ اسی طرح مفسر وہ ہے کہ جس میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہ ہو۔ جب وہاں احتمال بلا دلیل بھی موجود نہیں تووہ مفسر ہوگا۔
(2)دودھ ایک لیٹر ہے یا نہیں؟اس کے تعین میں خطا کا امکان موجود ہے،لیکن تعین مشکل نہیں۔جو پیمانہ دودھ کی پیمائش کے لیے ہے،اس سے ناپ لینے پر یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ دودھ ایک لیٹر ہے۔
اسی طرح مفسر کے تعین کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں تاویل قریب اور تاویل بعید کی گنجائش نہ ہو۔اب رہی تاویل متعذرکہ اس کا عبارت سے کسی طرح کوئی تعلق نہ ہو،اورجب بھی اس تاویل متعذر کوقبول کیا جائے تو کلام کا اصل مفہوم باطل ہوجائے تو ایسی تاویل درحقیقت تحریف وتبدیل ہے۔اس کا نام تاویل باطل اور تاویل متعذرہے۔یہ فقہا ومتکلمین کسی کے یہاں مقبول نہیں۔اشخاص اربعہ کی عبارتوں میں دیابنہ تاویل باطل کرتے ہیں،اسی لیے ہزار تاویل کے باوجود حکم کفر ختم نہیں ہوتا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ لوگ توبہ کرلیتے،لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
اب مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ امت مسلمہ کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکے ہیں۔جن لوگوں کو ایمان پیارا ہو،اور آخرت کاخوف ہو، وہ حکم شرعی کوتسلیم کرلیں۔