شریعت مطہرہ میں اپنے کسی بھی نیک عمل کا ثواب کسی فوت شدہ یا زندہ مسلمان کو پہنچانا ایصال ثواب کہلاتا ہے اور یہ جائز و مستحسن ہے، جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ پاک اور صحابہ کرام ؓکی مبارک زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور ایصال ثواب معمولات سے ثابت ہے۔مسلمان کے انتقال کرتے ہی پہلا عمل نمازجنازہ ہے جو ایصال ثواب کی ایک صورت ہے۔
مسلمان اپنے کسی بھی نیک عمل کاثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچاسکتا ہے،زندوں کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں،اس سے نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں،گناہ گاروں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اہلِ قبر سختی یاعذاب میں مبتلاہو ں تونجات مل جاتی ہے یااس میں تخفیف ہوجاتی ہے۔حضرت انس ؓ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یارسول اللہ! ہم اموات کی طرف سے جو صدقہ کرتے ہیں او ر ان کی طرف سے حج کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں کیا ان اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے؟ فرمایا ہاں ان کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں جیسے تمہیں کوئی آدمی ہدیہ دے تو تم خوش ہوتے ہو۔حضرت امام قشیری ؓنقل فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ کا بیان ہے میں حضرت رابعہ بصریہ ؓ کے حق میں دعائیں کیا کرتا تھا ایک دفعہ میں نے انھیں خواب میں دیکھا،فرمارہی تھیں،تمہارے تحائف یعنی دعائیں اور ایصال ثواب نور کے طباقوں میں ہمارے پاس آتے ہیں جو نور کے رومالوں سے ڈھانپے ہوتے ہیں۔ایصال ثواب کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہواس لئے کہ ایصالِ ثواب کرنے والا بھی اجر وثواب سے محروم نہیں رہتا اس کے عمل کا اجر اس کے لئے بھی باقی رہتا ہے بلکہ ان سب کی گنتی کے برابرنیکیاں ملتی ہیں جن کو اس نے ایصالِ ثواب کیا ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی کوئی مسلمان نفلی صدقہ کرتا ہے کہ اس کا ثواب اپنے والدین کو پہنچائے تو ان دونوں کو اس کا اجر ملتا ہے اورصدقہ کرنے والے کے اجر میں سے کوئی بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ایصال ثواب چاہے مالی عبادت کے ذریعہ ہو، جیسے صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا،کپڑا پہنانا، ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا یا بدنی عبادت سے ہو، جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وذکر واعتکاف اور طواف یا نفل حج یا عمرہ ایسے عمل کے ذریعہ ہو جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں کھدوانا یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا یاقرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کرنا یا اولاد کو دینی تعلیم دلانا وغیرہ ان سب چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراس سے میت کو خوشی وراحت ملتی ہے۔حضرت سعدؓ کی والدہ کا جب انتقال ہوا انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، یارسول اللہ! سعد کی ماں کا انتقال ہوگیا کون سا صدقہ افضل ہے۔ ارشاد فرمایاپانی انہوں نے کنواں کھووایا اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور فرمایا یہ سعد کی ماں کیلئے ہے۔فوت شدہ افراد کی روحیں اپنے رشتہ داروں سے ایصال ثواب کا مطالبہ کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مسلمانوں کی روحیں روز عید،یوم عاشورہ،رجب المرجب کے پہلے جمعہ اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور کہتی ہیں آج کی رات ایصال ثواب کرکے ہم پر مہر بانی کرو! اگرچہ ایک روٹی ہی سَہی،کیونکہ ہم اِس کے محتاج ہیں۔اگر گھر والے اِیصالِ ثواب نہ کریں تو وہ حسرت کے ساتھ لوٹ جاتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو قبرستان میں داخل ہوکر سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور سورہ تکاثر پڑھے، پھر کہے اے اللہ میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں تو وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔
شب برأت میں ہم اپنی مساجد میں جمع ہوکر نماز و تلاوت اور اذکار و استغفار کیا کرتے ہیں لیکن سال گذشتہ سے ایسے حالات نہیں رہے اوراس سال کرونا وائرس اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ پلٹ آیا ہے،احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں زیارت قبور کے بعد اپنے گھروں میں رہ کر بھی نماز و تلاوت،اذکار و استغفار کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔خاص طور پر نوجوان اس کی سنگینی کو سمجھیں وہ اپنے کسی بھی عمل سے ملت اسلامیہ کی رسوائی کا سبب نہ بنیں۔شب برأت، بامقصد اور پرعزم امور کے ساتھ منائیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ کی بارگاہ میں نادم و شرمندہ ہوکرتوبہ واستغفار کریں خوب دعائیں کریں اور پوری ملت اسلامیہ کے ساتھ اپنے ملک کی اس وبا و بلا سے حفاظت و سلامتی کے لئے خصوصی دعا کریں۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی