سلسلہ ماہِ رمضان :قسط نمبر 3
تحریر: شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی، مالیگاؤں
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا۔ اور فرمایا:’’ اے لوگو، تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ( اس مہینے کے) روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو تعوع قرار دیا ہے۔ ( یعنی وہ کام جو انسان اپنے دل کی خوشی سے کرے) جس شخص نے اس مہینے میں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی نیکی کی تو وہ اس کے جیسا ہے جس نے عام دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ہو۔ اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض اد اکیا تو وہ ایسا ہے جیسے عام دنوں میں ستر (70) فرض ادا کئے ہوں۔ اور رمضان صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہوگا۔ اور اس کے لئے اتنا ہی اجر و ثواب ہوگا جتنا روزہ دار کے لئے روزہ رکھنے کا ہوگا۔ اور روزہ دا ر کے روزے میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘اس کے آگے حضرت سلمان فارسی نے فرمایا۔ کہ ہم نے ( صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہ اجمعین نے ) عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوادے۔ یا ایک کھجور ہی کھلا دے۔ یا ایک گھونٹ پانی پلادے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلا دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ پھر اسے پیاس محسوس نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے۔ درمیان میں مغفرت ہے۔ اور آخر میں دوزخ( آگ) سے نجات ہے۔ اور جس نے رمضان کے مہینے میں اپنے غلام سے (یا ملازم یا نوکر سے) ہلکی خدمت لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ ( بیہقی)
اس حدیث میں حضور صلی اللہ علی وسلم نے مسلمانوں کو بتایا کہ ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں۔ اور یہ مہینہ بہت بزرگی اور برکت والا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو بہت سی بشارتیں ( خوش خبریاں) دیں۔ پہلی خوش خبری یہ دی کہ اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو اس رات میں عبادت کرے گا تو ہزار مہینوں کی راتوں کی عبادت کا ثواب پائے گا۔ اس کے بارے میں تفصیل آگے کی قسطوں میں آئے گی۔ دوسری خوش خبری ’’ تطوع ‘‘ کی دی ہے۔ یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہیکہ اللہ تعالیٰ نے یہ موقع دیا کہ مسلمان چاہیں تو اپنی خوشی سے راتوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور عبادت کریں ۔ راتوں کے قیام میں جو جتنی محنت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔ اگر نہیں بھی راتوں میں قیام کیا تو گنہ گار نہیں ہوگا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاکہ ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ ثواب بڑھا دیتے ہیں۔ اور ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر عطا فرماتے ہیں۔ اور ایک فرض کا ثواب ستر 70فرض کے برابر عطا فرماتے ہیں ۔یہ تیسری خوش خبری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی خوشخبری جنت کی دی۔ کہ یہ مہینہ صبر کرنے کا ہے۔ بھوک ،پیاس پر صبر کرنا۔ کوئی تکلیف دے تو اس پر صبر کرنا۔ اور صبر کا بدلہ تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جنت ہی ہے۔ پانچویں خوشخبری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی کہ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کر دیں گے۔ اور دوزخ سے آزاد کردیں گے۔ یعنی اسے دوہر اثواب ملے گا۔ ایک تو اپنے روزہ کا ثواب ملے گا دوسرا روزہ افطار کرانے کا ثواب ملے گا اور ایک خوش خبری اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی دی کہ وہ حوض کوثر سے میدان حشر میں پانی پیئے گا۔ اور میدان حشر میں پیاسا نہیں ہوگا۔ سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوش خبری دی کہ جو اپنے ماتحت پر آسانی کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ اب اتنی ساری خوش خبریاں سننے کے بعد بھی کوئی شخص ان سے فائدہ نہیں اٹھائے اور روزہ نہیں رکھ کر ان سب سے محروم رہے تو اس کی یہ بہت بڑی بد نصیبی ہوگی۔