نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
اعمال کے صدف کو نگینہ ملا ہے آج
بندوں کو مغفرت کا خزینہ ملا ہے آج
تعمیر ہورہی ہے عطاوں کی کائنات
ہر قلب کو سُرُور کا سینہ ملا ہے آج
مجرم بھی جاسکیں گے کرم کی پناہ میں
پاے طلب کو فیض کا زینہ ملا ہے آج
رکھ دیجیے جبینِ وفا، چشمِ تَر کے ساتھ
مقبول بندگی کا قرینہ ملا ہے آج
فرما رہا ہے رب کہ میں راضی ہوں مومنو
شمعِ دعا کو نورِ "رَضِینَا ” ملا ہے آج
لوگو ! شبِ برات مبارک ہو آپ کو
دستِ کرم سے جامِ شبینہ ملا ہے آج
سیراب ہو رہے ہیں غلامان مصطفٰی
میخانۂ رسول کا مِینا ملا ہے آج
دل کی سیاہی مٹ گئ توبہ کے نور سے
ہستی کو ایک گوہرِ بِینا ملا ہے آج
شیطان کیا ڈبوئے گا بحر گناہ میں
عفو و کرم کا ہم کو سفینہ ملا ہے آج
اشکوں سے دُھل گیا ہے غبارِ دل و نظر
بے چینیوں کو باغِ سکینہ ملا ہے آج
کچھ وہ ہیں جن کے نام پہ لکھدی گئ ہے موت
کچھ وہ ہیں جن کو اور بھی "جینا” ملا ہے آج
حج کے بھی ہورہے ہیں اِسی شب میں فیصلے
خوش بخت ہیں وہ جن کو مدینہ ملا ہے آج
تابِندہ اِس لیے ہے فریدی مرا قلم
لعلِ سخن کا مجھ کو دفینہ ملا ہے آج