تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
سال ہجری 1240 سے 1442 تک کا سرسری جائزہ لیں تو اسلامیان ہند میں متعدد تحریکیں خالص اصلاح کے نام پر نمودار ہوئیں۔ان میں سے متعدد تحریکیں اور متعدد محرکین نے اصلاح کے نام پر شر وفساد پھیلایا۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی وفات 1239 ہجری میں ہوئی۔ان کی وفات کے بعد اسماعیل دہلوی نے مذہب اہل سنت وجماعت میں اصلاح کے نام پر ایسا شر وفساد پھیلایا کہ نزول مسیح علیہ الصلوۃ والتسلیم سے قبل اس فتنے کا سرد ہونا مشکل ہے۔
اہل سنت وجماعت کا ایک طبقہ اسماعیل دہلوی کی فتنہ سامانیوں سے متاثر ہو گیا اور صراط مستقیم سے پھسل پڑا۔
1857میں سلطنت مغلیہ کے خاتمے کے بعد سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کی سیاسی,سماجی اور تعلیمی خدمات کی طرف توجہ دی۔
بدقسمتی سے سرسید نے مذہبی مسائل کو بھی اپنی عقل کے ترازو میں تولنا شروع کیا اور راہ حق سے پھسل پڑا۔
اس نے اسلامی عقائد و مسائل کی ایسی توضیح پیش کی جو جدید سائنس کے وقتی نظریات کے موافق تھی,لیکن روح اسلام سے کوسوں دور تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید نے قوم مسلم کی فلاح وبہبود کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔وہ ایک روشن خیال انسان تھا,لیکن مذہب میں اس کی دست اندازی نے قوم مسلم کی فکر ونظر کو بدل کر رکھ دیا۔
آج بھی بہت سے لوگ روشن خیال ہیں اور وہ بھی سرسید کی طرح اسلامی عقائد و مسائل کی من مانی تشریحات کرتے ہیں۔ان میں بعض گمراہ اور بعض مرتد ہوں گے۔پس ایسے روشن خیالوں سے دور بھاگیں۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور انہیں
اب مجھے ایسے روشن خیال جیالوں کی ضرورت تھی جو مذہبی تصلب کے ساتھ قوم کی صالح رہنمائی کر سکیں۔جیسے ماضی قریب میں امام احمد رضا قادری,صدر الافاضل مرادآبادی,مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن اڑیسوی اور قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہم الرحمہ۔
بہت سے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ وہ دینی تصلب اور مذہبی استحکام کے ساتھ قوم کی سیاسی وسماجی خدمات کے لئے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
فضل الہی سے امید ہے کہ یہ نوجوانان اہل سنت قوم کی صالح قیادت سر انجام دیں گے۔ان شاء اللہ تعالی
روشن خیالی کے نام پر مذبذبین کا ایک طبقہ بھی سر ابھار رہا ہے۔یہ لوگ اعتدال اور وسطیت کا جھنڈا اٹھائے جابجا نظر آتے ہیں۔ایسے گمرہوں کے قریب نہ جانا۔
ایاکم وایاہم لایضلونکم ولا یفتنونکم